تاجپوشی کے بعد شاہ چارلس کے اثاثوں کے بارے میں کچھ تفصیلات سامنے آگئی ہیں۔شاہ چارلس سوم اب تک کے سب سے عمر رسیدہ برطانوی بادشاہ ہیں جنہوں نے گزشتہ سال ستمبر میں اپنی والدہ ملکہ الزبتھ دوم کے انتقال کے بعد فوری طور پر شاہی تخت سنبھال لیا تھا۔
ملکہ الزبتھ دوم 70 سال کے طویل عرصے تک برطانیہ پر برسرِ اقتدار رہیں، اُنہوں نے اپنے بچوں شاہ چارلس، شہزادہ اینڈریو، شہزادہ ایڈورڈ اور شہزادہ این کے لیے تقریباً 500 ملین ڈالرز کی متوقع دولت چھوڑی ہے۔
مشہور جریدے فوربز کی رپورٹ کے مطابق، شاہی خاندان کی مجموعی مالیت تقریباً 28 بلین ڈالرز ہے۔ 2017ء میں شاہی خاندان کی برانڈ ویلیو تقریباً 88 بلین ڈالرز بتائی گئی تھی لیکن شاہی خاندان کی اصل مالیت کا ابھی تک حساب نہیں لگایا جا سکا۔
برطانوی اخبار دی گارجین کی رپورٹ کے مطابق، شاہ چارلس کی کل مالیت 2.3 بلین ڈالرز ہے۔ برطانیہ کے اخبار سنڈے ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، برطانیہ کے بادشاہ کی مجموعی مالیت تقریباً 750 ملین ڈالرز ہے۔
امریکی جریدے فارچیون نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ شاہ چارلس سوم برطانوی شاہی تخت کے مالک بننے سے پہلے ہی مجموعی طور پر تقریباً 440 ملین ڈالرز کے مالک ہیں۔
شاہ چارلس سوم نے تاجپوشی کے بعد اسکیپٹر، تلواریں، انگوٹھی حاصل کیں اور ایک سنہری گاڑی میں لندن کی سڑکوں پر سفر کیا۔ان کے سب سے قیمتی اثاثے وہ ہیں جنہیں محسوس بھی نہیں کیا جاسکتا جیسے کہ اُنہیں برطانیہ کے وراثتی ٹیکس سے استثنیٰ حاصل ہے۔جب ملکہ الزبتھ دوم کا انتقال ہوا تو شاہ چارلس کی مجموعی مالیت 500 ملین ڈالرز تھی۔
اُنہوں نے انگلینڈ میں سینڈرنگھم ہاؤس اور اسکاٹ لینڈ میں بالمورل کیسل سے خوب منافع حاصل کیا۔یہی نہیں بلکہ فوربز میگزین کی ایک رپورٹ کے مطابق، اُنہوں نے آرٹ، زیورات اور رئیل اسٹیٹ میں بھی سرمایہ کاری کی۔
فوربز میگزین نے انکشاف کیا ہے کہ شاہ برطانیہ کے پاس 18 کیریٹ سونے کی پرمیگیانی فلوریئر ٹورِک کرونوگراف واچ ہے۔ گاڑیوں میں شاہ چارلس سیشلز بلیو آسٹن مارٹن DB6 ولانیٹ کے مالک ہیں اور حال ہی میں ان کو ایک افتتاحی تقریب میں خود گاڑی چلاتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔
اتنا ہی نہیں، اُنہیں اپنی والدہ کی رولز رائس فینٹم VI اور بینٹلی اسٹیٹ لیموزین بھی وراثت میں ملی۔ برطانوی اخبار دی گارجین میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ شاہ چارلس سوم کی دو نجی جائیدادیں بھی انہیں والدہ سے وراثت میں ملی ہیں، جن کی مالیت 412 ملین ڈالرز ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ 2017ء کے پیراڈائز پیپرز کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ملکہ الزبتھ نے کیمن آئی لینڈ کے فنڈز سمیت کئی آف شور اکاؤنٹس میں بھی سرمایہ کاری کی تھی۔