چار صدیوں پرانی تاریخی عمارت کو پہنچے نقصان سے قبل مقامی میڈیا میں ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں لکھا گیا تھا کہ چار مینار کی مرمت کے دوران ڈرِل اور ہتھوڑے کا استعمال کیا جا رہا ہے جو کہ خطرناک ہے۔
حیدر آباد کی شناخت اور پوری دنیا میں مشہور چار مینار کا ایک حصہ اچانک ٹوٹ کر نیچے گر گیا۔ یہ واقعہ جمعہ کی رات کو پیش آیا اور قابل غور بات یہ ہے کہ جب چار مینار کا یہ حصہ ٹوٹ کر گرا تو مرمت کا کام چل رہا تھا۔ غنیمت یہ رہی کہ اس حادثے میں کسی شخص کو نقصان نہیں پہنچا۔ چار مینار کا حصہ ٹوٹ کر کیوں، گرا، اس بات کا پتہ محکمہ آثار قدیمہ کرے گا اور اس کےا فسران جلد وہاں پہنچ کر لوگوں سے پوچھ گچھ کریں گے۔
محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ تو جب آنی ہوگی آئے گی، لیکن چار مینار کو جو نقصان پہنچا ہے، اس کے تعلق سے انتظامیہ کی لاپروائی سامنے آ رہی ہے۔ دراصل کچھ دنوں قبل ایک مقامی میڈیا نے رپورٹ شائع کی تھی جس میں لکھا گیا تھا کہ چار مینار کی مرمت کے دوران ڈرِل اور ہتھوڑے کا استعمال کیا جا رہا تھا۔ 400 پرانی چار مینار کی مرمت میں ہتھوڑے اور ڈرِل کے استعمال پر سوال کھڑا کرتے ہوئے لکھا گیا تھا کہ ایسا کرنے سے عمارت کو نقصان پہنچ سکتا ہے، اور ایسا ہی ہوا۔
قابل ذکر ہے کہ چار مینار ایک تاریخی عمارت ہے جو پوری دنیا میں مشہور ہے اور سیاحوں میں پسندیدہ بھی ہے۔ اسے دیکھنے کے لیے حیدر آباد میں سیاحوں کی بھیڑ لگتی ہے۔ اس عمارت کی تعمیر قطب شاہی دور کے پانچویں سلطان محمد قلی قطب شاہ نے 1591 میں کرائی تھی۔ اس عمارت کی تعمیر موسی ندی کے شمالی ساحل پر کی گئی ہے۔ یہ دنیا میں اپنی طرح کی ایک خاص اور الگ عمارت ہے۔ اس کی خوبصورتی اور دلکشی کے لوگ دلدادہ ہیں اور اس کو نقصان پہنچنا افسوسناک ہے۔ سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ اس قدر اہمیت کی حامل عمارت کی مرمت میں لاپروائی کیوں برتی گئی؟