امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ ‘میں امریکیوں کی ایک اور نسل کو افغانستان میں جنگ کے لیے نہیں بھیجوں گا’ ساتھ ہی انہوں نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کیلئے 31 اگست کی حتمی تاریخ کا بھی اعلان کیا۔
فرانسیسی خبررساں ادارے اےا یف پی کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ امریکی فوج نے افغانستان میں اپنے اہداف حاصل کرلیے تھے جس میں اسامہ بن لادن کو مارنا، القاعدہ کو کمزور کرنا اور امریکا پر مزید حملے ہونے سے روکنا شامل ہے۔
انہوں نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ امریکیوں کی ایک اور نسل کو ناقابل فتح جنگ میں قربان کرنے کے بجائے افغان عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا چاہیے۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاؤس میں گفتگو کرتے ہوئے جو بائیڈن نے کہا کہ افغان فوج کے پاس طالبان کو پیچھے دھکیلنے کی صلاحیت موجود ہے۔
امریکی صدر نے کابل میں موجود امریکی سفارتخانے کی حفاظت کے لیے 650 فوجیوں کے سوا تمام امریکی فوجیوں کے افغانستان سے انخلا کے لیے 31 اگست کی حتمی تاریخ مقرر کی ہے۔
جو بائیڈن نے کہا کہ 20 سال تک فوج کی موجودگی سے امریکا نے 2001 میں اس ملک پر حملہ کرنے کا اپنا اصل مقصد بہت پہلے ہی حاصل کرلیا تھا جس میں القاعدہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا، امریکا پر 11 ستمبر جیسا ایک اور حملہ ہونے سے روکنا شامل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم جس کے لیے گئے تھے وہ مقاصد حاصل کرلیے ہم افغانستان میں قومی کی تعمیر کرنے نہیں گئے تھے اور یہ افغان عوام کا حق اور ذمہ داری ہے کہ خود اپنے مستقبل اور اس بات کا فیصلہ کریں کہ ملک کس طرح چلانا ہے’۔
جو بائیڈن نے خطے کے ممالک سے مطالبہ کیا کہ متحارب فریقین کے درمیان ایک جامع سیاسی تصفیہ کرنے میں مدد کریں، ان کا کہنا تھا کہ افغان حکومت کو طالبان کو پر امن طریقے سے ساتھ رہنے دینے کے لیے ان کے ساتھ ایک معاہدہ کرنا چاہیے۔
امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں امن و سلامتی کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ وہ طالبان کے ساتھ پر امن رہنے کے طریقہ کار پر کام کرنا ہے کیوں کہ پورے ملک کو کنٹرول کرنے کے لیے افغانستان میں ایک متفقہ حکومت بننے کا امکان بہت کم ہے۔
جو بائیڈن کی تقریر امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بارے میں اب تک کا سب سے وسیع تبصرہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امریکی فوجی مشن کے خاتمے کے پیشِ نظر ہم ہزاروں افغان مترجموں کو ملک سے باہر لے جانے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔
امریکی حکومت کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ان مترجموں کو تیسری دنیا کے ممالک منتقل کردیا جائے گا اور وہ امریکا میں داخلے کے لیے ویزا کی درخواست دے سکتے ہیں لیکن ان کے مقامات کا بھی تعین کرنا باقی ہے، گوام، قطر اور متحدہ عرب امارات ممکنہ مقامات ہوسکتے ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے امریکا نے خاموشی سے بگرام ایئربیس خالی کردی تھی جبکہ پینٹاگون نے کہا تھا کہ امریکی فوج کا 90 فیصد انخلا مکمل ہوچکا ہے۔
یاد رہے کہ امریکا سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں ایک معاہدے کے تحت افغانستان سے انخلا پر راضی ہوا تھا اور جو بائیڈن نے بھی ان فوجی رہنماؤں کی توقعات پر پانی پھیر دیا تھا جو افغانستان میں فوجیوں کی موجودگی برقرار رکھنے کے حامی تھے۔
افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل آسٹن ملر نے خبردار کیا تھا کہ ملک خانہ جنگی کی جانب جاسکتا ہے۔