امریکی صدارتی انتخابات میں اس بار کانٹے کی ٹکّر ہے جس میں کامیابی کے لیے ڈیموکریٹک اور ریپبلکن جماعتیں تقریباﹰ پچیس لاکھ بھارتی نژاد ووٹرز کو اپنی طرف راغب کرنے کی ہر ممکن کوشش میں لگی ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور بھارتی نژاد امریکی شہریوں کے ساتھ ایسی اچھی دوستی قائم کر لی ہے کہ آئندہ تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں بھارتی نژاد امریکی انہی کو ووٹ دیں گے۔ اس سے قبل ایسے ووٹروں کو راغب کرنے کے لیے ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے تحت ’فور مور ایئرز‘ کے عنوان سے ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں ہیوسٹن کے ‘ہاؤڈی موڈی‘ اور احمدآباد میں منعقدہ ‘نمستے ٹرمپ‘ جیسے پروگراموں میں نریندر مودی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریروں کی جھلکیاں پیش کی گئی تھیں۔
وائٹ ہاؤس میں بریفنگ کے دوران اسی ویڈیو سے متعلق ایک سوال پوچھا گيا جس کے جواب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم ان کے بہت ہی گہرے دوست ہیں۔ ”ہمیں بھارت سے بڑی حمایت ملی ہے۔ ہمیں وزير اعظم نریندر مودی کی بھی عظیم حمایت حاصل ہے۔ میں تو یہی سوچوں گا کہ بھارتی نژاد امریکی لوگ تو ٹرمپ کے لیے ووٹ کریں گے۔ مودی میرےگہرے دوست ہیں اور وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ آسان تو کچھ بھی نہیں ہے، تاہم انہوں نے اچھا کام کیا ہے۔‘‘
ٹرمپ نے مودی کی تعریف ایک ایسے وقت کی ہے جب تباہ حال بھارتی معیشت اور بے روزگاری کی ریکارڈ شرح کے لیے ان پر زبردست نکتہ چینی ہو رہی ہے۔ ایک طرف اقتصادی صورتحال بری ہے تو دوسری جانب کورونا وائرس کی وبا اتنی تیزی سے پھیلتی جاری ہے کہ بھارت میں 40 لاکھ سے بھی زیادہ افراد اس سے متاثر ہوچکے ہیں جب کہ 70 ہزار کے قریب ہلاک بھارتی شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ ناقدین کہتے ہیں کہ مودی کی حکمت عملی ہر محاذ پر ناکام دکھتی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2015ء میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے مہاجرین کے لیے سرحدیں کھولنے کے فیصلے کو ایک بہت بڑی غلطی سے تعبیر کیا تھا۔ وہ جرمنی کی پالیسیوں پر تنقید بھی کرتے رہے ہیں اور کبھی ان حق میں بیان بھی دیتے رہے ہیں۔
اس موقع پر ٹرمپ نے ہیوسٹن میں مودی کے ساتھ اپنی ملاقات اور پھر بھارتی ریاست گجرات میں مودی کے ساتھ جلسے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ عوام نے جس گرمجوشی سے ان کا استقبال کیا تھا وہ ایک مثال ہے اور وزیر اعظم مودی کی اس سے بڑی فیاضی اور کیا ہوسکتی تھی۔ انہوں نے کہا، ’’مودی ایک بڑے رہنما اور عظیم شخص ہیں۔‘‘
صدارتی انتخابات میں سخت مقابلے کے پیش نظر حالیہ ہفتوں میں ڈیموکرٹیک اور ریپبلکن پارٹیوں نے بھارتی نژاد رائے دہندگان کو اپنی جانب آماداہ کرنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایشائی نژاد افراد عموما ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت کرتے رہے ہیں تاہم مودی کے سبب بھارتی نژاد افراد کا ایک طبقہ اس بار ریپبلکنز کی جانب آمادہ دکھائی دیتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ڈیموکریٹ پارٹی نے بھارتی نژاد کمالہ ہیرس کو نائب صدر کا امیدوار نامزد کیا ہے۔
امریکا میں تقریبا 40 لاکھ بھارتی شہری رہتے ہیں جن میں سے تقریبا 25 لاکھ افراد کو ووٹ ڈالنے کا بھی حق حاصل ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات کی تاریخ میں غالباً پہلی بار کسی بھارتی وزیر اعظم کے ساتھ تشہیری مہم کا ویڈیو جاری کیا گيا۔ ٹرمپ نے بھارتی نژاد ووٹروں کو اپنی طرف آمادہ کرنے کے لیے پہلی مرتبہ ہندوؤں کے لیے ایک علیحدہ اتحادی گروپ تشکیل دیا ہے جب کہ سکھوں کے لیے بھی ایک الگ گروپ بنایا گیا ہے۔
اس دوران صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر سے بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی کے خاتمے کے لیے ثالثی کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ صورت حال بہت ہی ناگوار ہے۔
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکا اس بارے میں دونوں ممالک سے بات کرتا رہا کہ آخر اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، ”چین اور بھارت کے معاملے میں مدد کے لیے ہم تیار بیٹھے ہیں۔ اگر ہم کچھ کر سکتے ہیں تو ہمیں اس میں شامل ہو کر اسے حل کرنے میں خوشی ہوگی۔‘‘
ٹرمپ نے اس سے قبل بھی فریقین میں ثالثی کی پیشکش کی تھی جسے چین نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ کہ اس معاملے میں کسی تیسرے فریق کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن بھارت نے اس پر خاموشی اختیار کی تھی۔