گزشتہ دنوں کراچی پر بھی ٹڈی دل کا حملہ ہوا تو سندھ کے وزیرِ زراعت نے مشورہ دیا کہ لوگ ٹڈیاں پکڑ کر ان کی بریانی بنائیں، کڑاہی بنا کر کھائیں۔ امید ہے کہ انہوں نے خود بھی اس پر عمل کیا ہوگا۔ لیکن لطیفہ یہ ہوا کہ بیشتر اخبارات نے کڑاہی کو ’کڑھائی‘ لکھا۔
ایک اخبار نے درمیان کی راہ نکالی اور ’کڑائی‘ لکھ دیا۔ ہم نے اپنے ساتھی سے پوچھا کہ جب کڑھائی لکھا ہے تو اس کے ساتھ ’سلائی‘ بھی لکھا جائے، کیونکہ عموماً سلائی، کڑھائی ایک ساتھ آتے ہیں، اور ’کڑاہی‘ کا کوئی تعلق ’کڑھائی‘ سے نہیں ہے۔
کڑاہی بڑی ہو تو ’کڑاہو‘ بن کر مذکر ہوجاتی ہے۔ ایک محاورہ ہے ’کڑاہی میں سر دیا تو موسلوں کا کیا ڈر‘۔ موسلوں کی جگہ ’دھموکوں‘ بھی کہا جاتا ہے۔ بڑی کڑاہی کو کڑاہ اور کڑاہا بھی کہتے ہیں۔ ہندی کا لفظ ہے۔ ’کڑاہی چڑھنا یا چولہے پر رکھنا‘ کا مطلب ہے پکوان پکانا، ضیافت کا سامان کرنا۔ جیسے اُدھر بادل چھائے اور اِدھر کڑاہی چڑھی۔
خواتین میں ایک خیال یہ ہے کہ جو لڑکا یا لڑکی کڑاہی چاٹے اس کے بیاہ میں بارش برستی ہے۔ ویسے کڑاہی کی جگہ دیگچی چاٹنا بھی کہا جاتا ہے۔
بہرحال ٹڈی دل آنے اور صوبائی وزیر کے چٹخارے دار بیان سے کتنے ہی لوگوں کو علم ہوا کہ ٹڈی حلال ہے، اسے کھایا جاسکتا ہے، گوکہ اس میں گوشت کے بجائے ہڈیاں ہی ہوتی ہیں۔ ٹڈی اور مچھلی 2 چیزیں ہیں جن کو ذبح کرنے کی ضرورت نہیں۔ ایک اخبار میں ’ٹڈی دل کا غول‘ بھی پڑھا۔ دل کا مطلب ہی انبوہ، فوج، لشکر ہے۔ ایک شعر ہے
دل فوجِ ستم کا جو اُدھر سے اِدھر آیا
بدلی میں چھپا چاند، اندھیرا نظر آیا
دَل (’د‘ پر زبر) ہندی کا لفظ ہے اور اس کے مطالب جسامت، موٹائی، یامٹائی جیسے شیشے کا دَل، پھوڑے کا دَل، پتّا جیسے تلسی دَل۔ دل بادل بہت سی فوج، درباری خیمہ، بڑا خیمہ۔ نواب اودھ آصف الدولہ کے ہاتھی کا نام دل بادل تھا۔ اس سے ایک لفظ دلدار ہے جس کا کوئی تعلق دِلدار سے نہیں۔ دَلدار کا مطلب ہے موٹا، دبیز۔ جیسے دَلدار پان، دَلدار تختہ۔ ویسے تو دِلدار بھی موٹا ہوسکتا ہے اور شہر میں ہم نے دِلدار پان ہاؤس بھی دیکھا ہے۔ ایک مزاح گو شاعر کا شعر ہے
دِلدار کو دل دے دیا خود ہوگئے بے دل
ہم آج سے پہلے کبھی بے دل تو نہیں تھے
بیدل کے نام سے کچھ شاعر بھی گزرے ہیں جیسے بیدل جونپوری، بیدل شاہجہاں پوری، ایسے ہی ایک شاعر نے جب اپنا مجموعہ کلام ہمیں دیا تو عرض کیا کہ نام میں دو نکتے کم ہیں۔ انہوں نے خوش دلی سے تسلیم کیا کہ وہ ’پیدل‘ ہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ وہ عقل سے پیدل نہیں تھے۔
ہمزا عربی کا لفظ اور مذکر ہے۔ اس کا مطلب ہے وہ الف جو کھینچ کر پڑھا جائے۔ شروع میں آکر ہمزہ الف ہوجاتا ہے۔ عربی کے الفاظ میں ہمزہ آخر میں آتا ہے جیسے دعاء، بناء، فضاء، سماء وغیرہ۔ تاہم ماہرینِ لسانیات کا کہنا ہے کہ عربی الفاظ جب اردو میں آئیں تو ان میں ہمزہ لگانے کی ضرورت نہیں۔ بیشتر علماء نے اس سے گریز کیا ہے۔ اردو لغات میں بھی اسی طرح ہے، مثلاً نوراللغات میں دعا جیسے الفاظ کے آخر میں ہمزہ نہیں لگائی گئی۔ ایک شعر ہے
گرمیوں میں جو پریشاں ہوئے ہم بادہ پرست
مانگی سر کھول کے ساقی نے دعا ساون کی
گزشتہ دنوں ایک سیاست دان نے حکمران کو مشورہ دیا کہ اپنے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا نہ لگوائیں۔ کلنک بڑا دلچسپ لفظ ہے۔ ہندی کا ہے اور اس کے 2 حصے ہیں، یعنی ’کل اور انک‘۔ کل کا مطلب ہے کالا، اور انک کے معنی ہیں نشان۔ انک کے الف پر زبر ہے، یہ انگریزی والا اِنک (INK) نہیں، اگرچہ نشان اس کا بھی پڑ جاتا ہے۔
تو کلنک کا مطلب ہوا کالا نشان۔ اس کا ٹیکا لگانا اپنی بدنامی اور رسوائی کا اشتہار لگانا ہے۔ کلنک سنسکرت سے ہندی اور وہاں سے اردو میں آیا ہے۔ اسی سے کلنک چڑھانا بھی ہے، لیکن یہ اردو میں عام نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے بدنام کرنا، رسوا کرنا۔ اردو میں کلنک نہیں چڑھاتے، چاند چڑھاتے ہیں یا دیگ چڑھاتے ہیں۔ مزاروں پر چادر بھی چڑھائی جاتی ہے، لیکن چادر یا پھول چڑھانا مثبت معنوں میں آتا ہے۔
کلنک سے ہندی میں ایک اسم صفت ’کلنکی‘ ہے یعنی بدنام، رسوا، ذلیل۔ کلنک سے ملتا جلتا لفظ ’کلنگ‘ ہے جو لمبی ٹانگوں والا ایک آبی پرندہ ہے جسے ’قاز‘ بھی کہتے ہیں۔ یہ بہت چربی والا پرندہ ہوگا اسی لیے ’روغنِ قاز مَلنا‘ کی اصطلاح مکھن لگانے کے معنوں میں استعمال کی جاتی ہے۔ اس کے حوالے سے ایک مثل بھی ہے ’اماں ٹینی باپ کلنگ، بچے دیکھو رنگ برنگ‘۔
فارسی میں ظرف زماں میں ’یے‘ نہیں بڑھاتے بلکہ ایک کسرہ بڑھا دیتے ہیں، اسے اضافتِ ظرفی کہتے ہیں جیسے ریگِ بیاباں، جامِ مے، آبِ رواں وغیرہ۔ ذوقؔ کا مصرع ہے ’کہوں اے ذوقؔ کیا حالِ شب ہجر‘۔ یہ کلیہ ڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی (دہلی) کو بھی سمجھ لینا چاہیے، جنہوں نے ’اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ’ بڑی محنت سے مرتب کیا ہے، لیکن جہاں فارسی کے اشعار استعمال کیے ہیں وہاں کسرہ بڑھانے کے بجائے ’یے‘ کا استعمال کیا ہے جیسے ’یکسرے‘۔
یہاں یکسر میں ’ر‘ کے نیچے زیر لگا کر اضافت کا استعمال کرنا چاہیے تھا۔ غنیمت ہے کہ انہوں نے میر کے مصرع میں کحلِ جواہر کو کحلے جواہر اور خاکِ پا کو خاکے پا نہیں لکھا۔ یہ بدسلوکی صرف فارسی اشعار میں روا رکھی ہے۔ ویسے تو محترمہ نے اردو کے مشہور اشعار کے ساتھ بھی بلا امتیاز بُرا سلوک کیا ہے۔ مثلاً ایک بڑے معروف شعر کا مصرع ہے ’ارادے باندھتا ہوں، سوچتا ہوں، توڑ دیتا ہوں‘۔
محترمہ نے اس میں تصحیح کرتے ہوئے ارادے کو ’امیدیں‘ میں بدل دیا ہے۔ انہیں ’آس‘ کے بارے میں وضاحت کرنی تھی کہ آس امید کو کہتے ہیں۔ چنانچہ اس کی تائید میں وہ امیدیں لے آئیں کہ امیدیں ہمارے خواب ہیں، خیال ہیں، توقعات ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ اگر شعر کے مطابق وہ ارادے باندھتیں تو آس سے اس کا میل نہ ہوتا۔
آس، امید اور ارادے میں واضح فرق ہے۔ انہوں نے ایک فارسی مصرع درج کیا ہے ’گرچہ خوردیم نسبتے است بزرگ‘۔ یعنی اگرچہ ہم چھوٹے ہیں لیکن ہماری نسبت بڑی ہے۔ اس میں بھی وہی غلطی ہے کہ ’نسبت‘ میں یائے اضافی لگانے کے بجائے نسبتے کردیا۔ مصرع میں خوردیم استعمال کیا ہے جب کہ خورد کا مطلب تو کھانا ہے مثلاً خورد، برد۔ شاعر تو مر کھپ گیا ورنہ اپنے شعر کا یہ حشر دیکھ کر اب مرجاتا۔
ترجمے کے مطابق چھوٹے کی فارسی خرد ہے، خورد نہیں۔ غالباً یہ ’خردایم‘ ہوگا۔ ’خورد‘ بروزن برد ہے۔ یہ فارسی کا لفظ ہے، مطلب ہے طعام۔ خورد برد کرنا یعنی غبن کرنا، کھا جانا۔ خوردنی کا مطلب ہے کھانے کی چیز۔ کھانوں میں استعمال ہونے والا تیل بھی خوردنی تیل کہلاتا ہے۔ اسی طرح خوردنی تمباکو۔ خورد میں ’و‘ کا اعلان نہیں ہوتا اور تلفظ برد کے وزن پر ہے۔ چھوٹے، بڑے کے لیے فارسی ترکیب اردو میں عام ہے یعنی خرد وکلاں۔
موصوفہ نے ایک مشہور شعر کا حلیہ بھی بگاڑ دیا اور بلاتحقیق اس کو اسی طرح درج کردیا جیسا کہ وہ مشہور ہے۔ اس کا مصرع یوں دیا ہے ’پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا‘۔ یہ شعر ایک مغل شہزادے جہاندار شاہ کا ہے اور یوں ہے