صدر عمر البشیر کی معزولی اور گرفتاری کے بعد داخلی مسائل سے دوچار سوڈان میں حزب اختلاف کے مظاہرین کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کے بعد اب تک مجموعی طور پر 101 افراد کی ہلاکت کے تصدیق ہوچکی ہے۔ اس سے قبل سوڈانی دریائے نیل سے 40 افراد کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں اور مظاہرین نے فوج کی جانب سے غیرمشروط مذاکرات کی پیشکش بھی مسترد کردی ہے۔
واضح رہے کہ اپریل میں صدر عمر البشیر کو ہٹائے جانے کے بعد طاقتور عسکری کونسل اور حزب اختلاف کی پارٹیوں میں اقتدار کی پرامن اور قابل قبول منتقلی پر تعطل پیدا ہوگیا تھا۔ اس کے بعد حزب اختلاف کا احتجاج شروع ہوا جو شدید جھڑپوں کی شکل اختیار کرگیا ہے کیونکہ فوج نے جماعتوں سے کئے گئے تمام معاہدے ختم کردیئے تھے۔ اس طرح درجنوں ہلاکتیں رونما ہوئیں جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ گزشتہ روزسوڈانی دریائے نیل سے مزید 40 لاشیں ملی ہیں اور اس کا انکشاف حزب اختلاف کی ہمدرد ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے کیا ہے۔
تنظیم نے کہا ہے کہ تمام لاشیں فوج نے اپنے قبضہ میں لے کرنامعلوم مقام پر منتقل کردی ہیں۔ اس سے ایک روز قبل لوگوں کی بڑی تعداد احتجاج کررہی تھی اور اس پر فوج نے دھاوا بول دیا تھا اور یہ واقعہ دارالحکومت خرطوم میں پیش آیا تھا۔
ڈاکٹروں کی تنظیم نے اب تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد 101 بتائی ہے۔ دوسری جانب عسکری کونسل کے سربراہ جنرل عبدالفتح البرہان نے اعلان کیا تھا کہ وہ تمام پارٹیوں سے غیرمشروط بات چیت کو تیار ہیں لیکن ایک ماہ سے زائد عرصے سے سراپا احتجاج دھڑوں نے اس پیشکش کو مسترد کردیا ہے۔
مذاکرات کی پیشکش پر احتجاج کرنے والی ایک پارٹی ’ سوڈانی پروفیشنل ایسوسی ایشن‘ کے ترجمان محمد یوسف المصطفیٰ نے کہا ہے کہ فوج اپنی پیشکش میں سنجیدہ نہیں ہے اور جنرل برہان نے لوگوں کو قتل کیا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔