ماہ صیام کی سحر وافطار سے جڑے تاریخی واقعات میں ’رمضان افطار توپ‘ کو بھی اہمیت حاصل رہی۔ دنیا کے کئی مسلمان ممالک کے شہروں میں سحری اور افطاری کا آغاز توپ کا گولہ داغے جانے ہوتا رہا۔ اگرچہ جدید مواصلاتی نظام کے آنے کے بعد افطار توپ کی روایتی اہمیت کم ہوتی چلی گئی مگر افطار توپ کو آج بھی بعض شہروں میں اہمیت دی جاتی ہے۔
افطار توپ کی تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ اس توپ کا آغاز کب اور کہاں سے ہوا؟ مصری ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر عبدالرحیم ریحان نے العربیہ ڈاٹ نیٹ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’قاہرہ میں مساجد کی کثرت اور ان سے گونجنے والی اذان کی صداؤں کے باوجود روزہ دار اپنی سحری کا اختتام اور افطار کے آغاز کے لیے افطار کے گولے کی آواز پر انحصار کرتے۔ قاہرہ میں افطار توپ کا سب سے پہلے استعمال ممالیک کے عہد میں 1439ء میں یعنی آج سے چھ سو سال پہلے ہوا۔ قاہرہ پہلا شہر تھا جس نے ماہ صیام کے دوران غروب آفتاب یعنی افطاری اور سحری کے اوقات میں توپ استعمال کرنا شروع کی۔ انہوں نے بتایا کہ ماہ صیام کے اعلان اور عید کا چاند نظر آنے کے بعد اس کے اعلان کے لیے توپ کا استعمال 1455ء بہ مطابق 859ھ میں ملتا ہے۔ یہ ممالیک فرمانروا ’خوش قدم‘ کا دور تھا۔ مصری فرمانروا کو یہ توپ جرمنی کے ایک کارخانہ دار کی جانب سے تحفے میں پیش کی گئی تھی۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ توپ قاہرہ پہنچائے جانے کے بعد اس کے ذریعے پہلا گولہ داغے جانے کا وقت بھی غروب آفتاب ہی تھا۔ جب گولا داغا گیا تو اس کا مقصد غروب آٖفتاب یا افطار کا اعلان مقصود نہیں تھا مگر عام لوگوں نے اسے افطار کے اعلان کے طور پر سمجھا۔ اگلے روز شہریوں نے قاہرہ کے گورنر کا شکریہ ادا کیا۔ مصری ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر علی احمد طائش کا کہنا ہے کہ قاہرہ کے گورنر نے توپ کو افطاری اور سحری کے اوقات کے تعین کے لیے استعمال میں لانے کا باقاعدہ اعلان کیا جس کے بعد صدیوں تک رمضان توپ کا باقاعدگی سے نہ صرف سحر وافطار کے لیے استعمال ہوتا رہا بلکہ رمضان المبارک اور عیدالفطر کے اعلان کے لیے بھی توپ استعمال کی جاتی۔ الحاجہ فاطمہ توپ ڈاکٹر ریحان نے بتایا کی تاریخی مصادر سے پتا چلتا ہے کہ قاہرہ میں سنہ859 ھ میں لائی گئی توپ کو اس وقت کے گورنر خوش قدم نے ایک گولہ داغے جانے کے بعد بند کردیا تو شہر کے علماء اور سرکردہ شخصیات سلطان سے اپیل کی کہ وہ توپ کو باقاعدگی کے ساتھ سحر وافطار کےاوقات میں چلائیں تاکہ روزہ داروں کو سحر و افطار کے لیے سہولت میسر ہو۔ خوش قدم اس پر راضی نہ ہوا۔ انہوں نے یہ مطالبہ ملکہ الحاجہ فاطمہ کے سامنے رکھا اور ان سے کہا کہ وہ خوش قدم کو قایل کریں، الحاجہ فاطمہ نے اپنے شوہر کو سحر وافطار کے لیے توپ کے استعمال پر قائل کر لیا جس کے بعد آج تک رمضان توپ کا نام ’الحاجہ فاطمہ توپ‘ ہی مشہور رہا ہے۔ ڈاکٹر ریحان کا کہنا ہے کہ تاریخی حوالوں سے پتا چلتا ہے کہ والی مصر محمد علی الکبیر نے مصری فوج کے لیے کئی توپیں خرید کی تھیں۔ ایک توپ کو ماہ صیام کے دوران تیار کیا جا رہا تھا کہ اس کا ایک گولہ افطاری کے وقت داغا گیا تو یہ افطاری کی ایک علامت بن گیا۔ اس کے بعد باقاعدگی سے توپ کو سحری اور افطاری کے اعلان کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔ مصری ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ قاہرہ میں چار مقامات پر چھ توپیں نصب تھیں۔ ان میں دو قاہرہ قلعہ اور دو العباسیہ میں، جب کہ نیو مصر، حلوان میں ایک ایک توپ نصب تھی۔ ان توپوں سے ماہ صیام، عید الفطر، سحری اور افطاری کے اوقات میں گولے داغے جاتے۔ کچھ عرصے تک مصر میں رمضان توپوں کو بند بھی کیا گیا۔ مگر سنہ 1983ء میں اس وقت کے مصری وزیرداخلہ قلعہ صلاح الدین میں ایک رمضان توپ نصب کرنے کا حکم دیا۔ یہ توپ آج بھی المقطم کی چوٹی پر نصب ہے۔ دیگر چار توپیں بھی قاہرہ کے مختلف مقامات پر موجود ہیں جن سے سحر و افطار کے اوقات میں گولے داغے جاتے ہیں۔