رئیلٹی شو نے تمام حدیں پار کرتے ہوئے نہایت فحش مواد پروگرام میں آن لائن نشر کردیا
او ٹی ٹی پلیٹ فارمز پر نشر کیے جانے والے نازیبا اور فحش مواد نے ایک بار پھر عوامی حلقوں اور سیاسی ایوانوں میں شدید ردعمل کو جنم دیا ہے۔
حال ہی میں سامنے آنے والے ایک ریئلٹی شو کے وائرل کلپ نے سوشل میڈیا پر تہلکہ مچا دیا، جس میں شرکاء سے ’’کاما سترا‘‘ کی پوزیشنز پر سوالات اور ان کی عملی نمائندگی کروائی گئی۔
یہ متنازع شو ’ہاؤس اریسٹ‘ کے نام سے ’ULLU‘ پلیٹ فارم پر دستیاب ہے، جس کی میزبانی سابق بگ باس امیدوار اعجاز خان کر رہے ہیں۔
وائرل کلپ میں دکھایا گیا مواد نہ صرف عوامی اخلاقیات پر سوال اٹھاتا ہے بلکہ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ بھارتی او ٹی ٹی پلیٹ فارمز پر کس حد تک بے لگام مواد کو آزادی حاصل ہے۔
سیاسی جماعت شیو سینا (ادھو ٹھاکرے گروپ) کی رکنِ راجیہ سبھا پریانکا چترویدی نے اس کلپ کو شیئر کرتے ہوئے وزارتِ اطلاعات و نشریات سے سوال کیا کہ ایسے پلیٹ فارمز، جن پر کھلم کھلا بیہودہ مواد نشر کیا جارہا ہے، اب تک کسی پابندی کی زد میں کیوں نہیں آئے؟
پریانکا کا کہنا تھا کہ وہ پہلے بھی ’Ullu‘ اور ’Alt Balaji‘ جیسے پلیٹ فارمز کے خلاف شکایات درج کرا چکی ہیں، مگر حکومت کی جانب سے کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں کیا گیا۔
دوسری جانب بی جے پی کے رکنِ پارلیمنٹ نشیکانت دوبے نے بھی معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ’’’یہ نہیں چلے گا‘‘‘ اور وزارتِ اطلاعات و نشریات کو کارروائی کی یقین دہانی کرائی۔
بی جے پی یوتھ مورچہ بہار کے صدر ورون راج سنگھ نے مزید سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ’’کیمرے پر جنسی پوزیشنز پر بات ہورہی ہے اور وزارت آنکھیں بند کیے بیٹھی ہے۔ ایسے شوز کو فوراً بند کیا جانا چاہیے۔‘‘
یہ معاملہ صرف سوشل میڈیا پر بحث تک محدود نہیں رہا۔ سپریم کورٹ نے بھی 28 اپریل کو ایک عوامی مفاد کی درخواست پر نوٹس جاری کرتے ہوئے مرکزی حکومت اور مختلف او ٹی ٹی اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے وضاحت طلب کی ہے کہ فحش مواد کے خلاف کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ عدالت نے اس معاملے کو ’’انتہائی اہم‘‘ قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ یہ پہلی بار نہیں کہ بھارت میں او ٹی ٹی پلیٹ فارمز اخلاقی حد پار کرتے دکھائی دیے ہیں۔ فروری میں مقبول پوڈکاسٹر رنویر اللہ آبادیہ بھی ایک کامیڈی شو ’’انڈیاز گوٹ لیٹنٹ‘‘ میں والدین اور جنسی تعلق سے متعلق متنازع تبصرے پر شدید تنقید کا شکار ہوئے تھے۔ اگرچہ انہوں نے معذرت کرلی تھی، مگر ان کے خلاف متعدد پولیس شکایات درج ہوئیں اور سپریم کورٹ نے ان کے ریمارکس کو ’’فحش‘‘ اور ’’معاشرے کو شرمندہ کرنے والا‘‘ قرار دیا۔
حالیہ واقعات نے بھارت میں او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کی نگرانی، ضابطہ کاری اور اخلاقی حدود کے تعین پر ایک بار پھر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ عوامی حلقے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ایسے پلیٹ فارمز پر فوری ایکشن لیا جائے تاکہ بچوں اور نوجوانوں کو منفی اثرات سے محفوظ رکھا جا سکے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت صرف بیانات تک محدود رہتی ہے یا واقعی کسی عملی قدم کی جانب بڑھتی ہے۔