ہندوستان میں جب سے انتہا پسند طاقتوں نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی ہے ،تب سے ہی فسطائی نظریات کوفروغ دینے کا آ ر ایس ایس کا منصوبہ بڑی شدت کے ساتھ زیر عمل لایا جارہا ہے ۔ اس منصوبہ کے تحت ملک کی دیگر اقوام کی جدو جہد آزادی میں قربانیوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک بار پھر منظم طریقے سے فسطا ئی طاقتوں نے ملک کے دبے کچلے اور مزدور طبقہ،دلتوں اور اقلیتوں کی آزادی سلب کرنے کی سازش پر ساری مشنری کو لگا دیا ہے۔
ایسے میں یوم آ ز ا د ی منانے کا مطلب کیا رہ جاتا ہے اس سوال کا جواب برسر اقتدار حکومت ،فسطائی قوتوں اور آر ایس ایس کو دینا چا ہئے۔یہ عجیب طرفہ تما شا ہے کہ جن سامراج نواز طاقتوں نے جنگ آزادی کی حمایت کے بجائے انگریزوں کی حمایت کی اوران کی نوازشوں سے اعلیٰ سرکاری مناصب پر فائز ہوکر خوب مال ودولت حاصل کی، وہی لوگ آج انتہائی بے شرمی کے ساتھ یہ باور کرارہے ہیں کہ ’’یہ وطن ہے ہمارا، تمہا را کچھ بھی نہیں‘‘۔ جبکہ جنگ آزادی کے وقت کے حالات کا اگر جائزہ لیا جائے جب برطانوی سامراج نے ملک پر قبضہ جمانے کیلئے ہندوستانیوں کے قتل و قتال کی ابتدا کی تھی توفسطائی طاقتوں کے دعووں کی پول کھل جاتی ہے اور یہ حقیقت سامنے آ تی ہے کہ جو طبقہ اس وقت مجاہدین آ زادی کی قربا نیوں پر مگر مچھ کے آنسو بہارہاہے وہ تو در اصل آزادی کے متوالوں کا شدید مخا لف اورانگریزوں کا حاشیہ بردار تھا۔چناں چہ منظم سازش کے تحت تاریخ آزادی سے مسلم قائدین اور شہداء کے ناموں کو ہٹایا جارہا ہے ،برصغیر پاک و ہند کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنے سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ مسلمانان ہند نے انگریز وں کی غلامی کو ذہنا کبھی قبول نہیں کیا،البتہ یہ کام تو خود فسطائی ذہنیت کے حامل اعلیٰ ذات کے برادران نے کیا ہے،جبکہ ملک کے غیور مسلمانوں نے ملک عزیز کو برطانوی استعمار کے پنجۂ استبداد سے چھڑانے اوروطن کی آزادی کی جد و جہد بڑی سے بڑی قربانیاں دے کر بھی جاری رکھی۔ بنگال کا سراج الدولہ وہ پہلا عظیم مجاہد ہے ،جس نے انگریز و ں کی جار حیت کے خلاف پلاسی سے جنگ آزادی کا آغاز کیا (جسے ہندوستان کی آزادی کی تاریخ میں’’جنگ پلاسی کے نام سے جانا جاتا ہے) اور پھر یہ جد وجہد مختلف حوالوں سے آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ٹیپو سلطان، بخت خان، احمد شاہ ابدالی، شاہ ولی اللہؒ ، سید احمد شہیدؒ ، شاہ اسماعیل شہیدؒ ، سنہ 1857 کی جنگ آزادی، علمائے دیوبند کا کردار اور مسلما نو ں کی سیاسی جد و جہد کی ایک طویل فہرست ہے۔ مجاہدین آزادی کی ایک لازوال داستان ہے وطن کی آزا دی کیلئے قر با نیو ں کی۔ دوسری طرف ہر جارح قوت کی طرح انگریز کے مظالم، ظالمانہ قوانین، قید وبند، جائیداد کی ضبطی، سولی پہ لٹکانا، دولت کا لالچ دے کر ضمیر خریدنا، غداری پر آمادہ کرنا، جنگ مسلط کرنا، قتل و غارت اور خون ریزی، بم باری اور فضائی حملے ہیں۔جس کی اپنے وطن سے جان سے بھی زیادہ محبت کرنے والے مسلم قائدین نے کبھی بھی پرواہ نہ کی۔غور طلب ہے کہ ہندوستانی تہذیب سماج میں ہم آہنگی کے ماحول کو قائم رکھنے کی ضمانت پیش کرتی ہے۔
ہندوستان کے لوگ ایک ساتھ مل جل کر رہتے آئے ہیں۔ ظلم وستم اور کسی خوف کے بغیرسماج کے لوگ ایک دوسرے سے ملتے جلتے رہے ہیں۔ ہرکسی کو اپنے خیالات کے اظہارکا حق ملتا رہا ہے۔ ہندوستانی تہذیب انسانی تہذیب سے وابستہ رہی ہے۔ ذرا پیچھے مڑکر موریہ دور میں دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ ایک ہزار برس سے بھی زیادہ پہلے، ہندوستانی آرٹس، فنون و لطیفہ جس نے ’’بدھ‘‘ کی شاندار پتھر کی کرنسیوں کی تخلیق میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔ قبل مسیح سیریا ئی عیسائیوں کی پہلی صدی میں آمد سے ہندوستان میں مسیحی مذہب نے اپنی جڑیں جمائیں۔ ایران میں رہ رہے پارسی ظلم و ستم سے بھاگ کر ہندوستان میں آکر آباد ہوئے۔ مسلمانوں نے بھی اس برصغیر میں آرٹ، اور زبانوں کو امیر بنایا۔وطن عزیز کے عظیم موسیقاروں میں سے ایک تھے تان سین، جو اکبر کے دربار میں ایک نورتن تھے۔ دارا شکوہ نے بھاگود گیتا کا فارسی میں ترجمہ کرایا تھا۔ حال ہی میں تبتی تارکین وطن نے بھی بھارت کو اپنا گھر بتایا ہے اور ہماری روحانیت اور مخلوط رہن سہن کی عظیم روایات کو مزید تقویت بخشی ہے۔ ہندوستانی تہذیب ہمیشہ سے ہی ایک وسیع سمندر کی مانند رہی ہے۔خوشی بات یہ بھی ہے کہ ملک کے آئین کے سیکولرڈھانچے نے سب کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا ہے۔ ہندوستانی آئین کو ملک کے سب سے عظیم دانشوروں میں سے ایک بھیم راؤ امبیڈکر کی صدارت میں تیار کیا گیا تھا اور اس کی پیش کش وزیر اعظم نہرو کی طرف سے کی گئی تھی۔
تاہم دکھ کی بات یہ ہے کہ صدیوں سے چلی آ رہی ہم آہنگی ، بھائی چارہ ، سائنس اور جمہوریت کی ہماری متحرک روایات کے سامنے اب سنگین چیلنجزدر پیش ہیں۔ ہندوستان کی آزادی کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ اقتدار میں ایک ایسی حکومت آئی ہے، جسے فیصلے لینے کا اختیار حاصل نہیں ہے ،بلکہ فیصلہ کرنے کی ساری طاقت آر ایس ایس کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ ایک ایسی تنظیم ہے جو یہ دعوی کرتی ہے کہ وہ ہندوتوا کے لئے ہے اوراس نے حکومت کے سارے اختیارات اپنے قبضے میں کرلئے ہیں۔ ہمیں کیا کھانا ہے اور کس کے تئیں کیسا برتاؤکرنا ہے اس کا فیصلہ بھی اب آر ایس ایس ہی کررہی ہے۔اگر ملک کا کوئی معزز شہری ان کے نظریات کی مخالفت کرتا ہے تو اسے بہ یک قلم وطن کا غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔