افغانستان اور بنگلہ دیش کے مختلف شہروں میں ہزاروں افراد نے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے تشدد اور دیگر مظالم کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا۔
ترک نیوز ایجنسی انادو لو کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے دارالحکومت کابل سمیت مختلف شہروں میں درجنوں افراد نے سڑکوں پر بھارت کے خلاف احتجاج کیا، بھارتی پرچم نذر آتش کیا اور سب سے بڑا مظاہرہ ایران کے سرحدی صوبے ہرات میں ہوا۔
مظاہرے میں شامل افراد نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف نعرے لگائے اور دنیا بھر کے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ اس ناانصافی کے خلاف متحدہ ہوجائیں۔
افغانستان کے دیگر شہروں کے علاوہ دارالحکومت کابل میں بھی اسی طرح کا احتجاج کیا گیا جس میں ہر مکتبہ فکرکی سیاسی جماعتیں اور افراد شامل تھے۔
بنگلہ دیش میں مودی کا متوقع دورے کے خلاف مظاہرے
انادولو کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں نماز جمعہ کے بعد ہزاروں افراد جمع ہوئے اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے متوقع دورے کے خلاف احتجاج کیا۔
مظاہرین نے بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے پیش نظر نریندر مودی کے دورے کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ مودی مسلمانوں کا قاتل ہے اور اپنے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دے رہے ہیں۔
مظاہرے کے منتظم نور حسین قاسمی کا کہنا تھا کہ ‘بنگلہ دیش میں کئی نسلوں سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی ہے اس لیے ہمیں کسی ایسے رہنما کا دورہ قبول نہیں جو شدت پسند اور فرقہ واریت کا پرچار کرنے والا ہو’۔
بنگلہ دیش میں ہزاروں افراد نے قاتل مودی کو سزا دو کے نعرے لگائے—فوٹو:اے پی
ڈھاکا میں مظاہرین میں بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم اور نریندر مودی کے خلاف نعرے لگائے۔
مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جس میں درج تھا کہ ‘قاتل مودی کو سزا دو’ اور قاتل مودی کی بنگلہ دیش کی سرزمین میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
رپورٹ کے مطابق بھارتی وزیراعظم نریندر مودی 17 مارچ کو بنگلہ دیش کا دورہ کریں گے۔
مقامی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں گزشتہ ہفتے شروع ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات میں اب تک 52 سے زائد افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوچکے ہیں جو متنازع شہریت قانون کے خلاف ہونے والے احتجاج کے نتیجے میں شروع ہوئے تھے۔
بھارتی پولیس نے 250 سے زائد افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا اور 900 سے زائد مظاہروں میں شرکت کے الزام میں گرفتار کرلیا ہے۔
یاد رہے کہ نریندر مودی کی قیادت میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے دسمبر میں متنازع شہریت بل منظور کرکے باقاعدہ قانون کی شکل دی تھی جس کے بعد مسلمانوں نے احتجاج کا آغاز کیا تھا۔
بعد ازں 23 فروری کو انتہا پسند ہندوؤں نے مسلم اکثریت والے علاقوں میں حملہ کرتے ہوئے وہاں آگ لگادی تھی اور مساجد کو اور مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچایا تھا۔
ان حملوں کے دوران ہجوم کی جانب سے متعدد لوگوں کو زندہ جلا دیا گیا تھا یا تشدد کرکے ان کی جان لے لی گئی تھی جس کے باعث مجموعی طور پر 50 سے افراد قتل ہوئے اور ان میں زیادہ مسلمان تھے جبکہ پرتشدد واقعات کے نتیجے میں درجنوں افراد شدید زخمی بھی ہوئے۔
ان پرتشدد کارروائیوں کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کی سازش صریح تھی کیونکہ حملوں کے دوران پولیس یا تو تماشائی بنی رہی یا انہوں نے مشتعل ہجوم کا ساتھ دیا، اس کے علاوہ ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی جس میں زخمی مسلمانوں کو پولیس اہلکاروں کی جانب سے زمین پر بیٹھنے اور حب الوطنی کے گانے گانے پر مجبور کیا جارہا تھا جو پولیس اور حملہ آوروں کے درمیان گٹھ جوڑ کو عیاں کرتا ہے۔
یہی نہیں بلکہ ہجوم کے کچھ رہنما بی جے پی سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کی تعریف کرتے بھی نظر آئے جبکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے مسلمانوں کے خلاف تشدد کی مذمت بھی نہیں کی۔
علاوہ ازیں یہ بھی تصور کیا جارہا کہ یہ حملے آر ایس ایس کے کارکنوں کی جانب سے کیے گئے اور انہیں متنازع شہریت قانون کے خلاف دسمبر سے ہونے والے احتجاج کا جواب قرار دیا گیا۔