نیویارک: انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بھارت میں متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر حکومتی کریک ڈاؤن کی سخت مذمت کی۔
ہیومن رائٹس واچ نے مودی سرکار پر زور دیا کہ مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال فوری طور پر بند کیا جائے اور متنازع شہریت قانون کو ختم کیا جائے جو عالمی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے کیونکہ ان میں رنگ و نسل کی بنیاد پر امتیازی سلوک کیا گیا ہے۔
قانون کے خلاف 12 دسمبر سے جاری احتجاجی تحریک میں سیکیورٹی اہلکاروں کے تشدد سے اب تک 8 سالہ بچے سمیت 25 سے زائد افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے جبکہ سیکڑوں گرفتار ہیں۔
یہ تمام اموات ان ریاستوں میں ہوئی جہاں بی جے پی کی حکومت ہے جن میں سے 18 افراد اترپردیش، 5 آسام اور 2 کارناٹک میں ہوئیں۔ جاں بحق زیادہ تر افراد مسلمان ہیں۔ بھارتی حکومت نے مسلمانوں کے سوا دیگر مذاہب کے تارکین وطن کو شہریت دینے کا قانون منظور کیا ہے جس کے خلاف ملک گیر شدید احتجاج جاری ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ مودی حکومت نے مظاہرین بشمول طلبہ کے خلاف طاقت کا بہیمانہ استعمال کیا۔ بھارتی حکومت احتجاج کو کچلنے کے لیے دور غلامی کے قانون کا سہارا لے رہی ہے، انٹرنیٹ بند کردیا گیا اور پبلک ٹرانسپورٹ پر پابندی عائد کردی گئی۔
گرفتار افراد پر سخت مقدمات قائم کیے جارہے ہیں اور اقدام قتل و جلاؤ گھیراؤ کی دفعات شامل کی جارہی ہیں۔ مظاہروں کے منتظمین کی خصوصا پکڑ دھکڑ کی جارہی ہے جس کے باعث بہت سے لوگ روپوشی کی زندگی اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
اترپردیش میں پولیس مسلمان اکثریتی محلوں میں دھاوا بول کر گھر گھر تلاشی لینے کے بہانے اندر گھس جاتی ہے اور لوگوں کو تشدد کا نشانہ بناتی ہے۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کی ان پر سیدھی گولیاں چلانے کی ویڈیوز بھی سامنے آئی ہیں۔ بھارتی وزارت اطلاعات و نشریات نے آزادی اظہار کو دبانے کے لیے نیوز چینلز کو بھی مظاہروں کی کوریج نہ کرنے کا کہا ہے۔
حکومت نے ان مسلمانوں کے لیے بڑے بڑے حراستی مراکز بھی قائم کردیے ہیں جنہیں غیر قانونی قرار دے کر شہریت سے محروم کردیا جائے گا۔