برطانوی فلم سازی کے معروف ادارے برٹش اکیڈمی آف فلم اینڈ ٹیلیویژن (بافٹا) نے لندن میں ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا جہاں انڈین فلموں کی صنعت کی تاریخ اور فلم بندی کے مختلف اہم پہلوؤں پر گفتگو کی گئی۔
‘انڈین سنیما: کل اور آج’ کے عنوان سے منعقد ہونے والی تقریب کا آغاز معروف ہدایت کار کے آصف کی مشہور فلم مغل اعظم کے بارے میں گفتگو سے ہوئی۔ اس فلم کی کہانی شہزادہ سلیم اور انارکلی کے ناکام عشق کے گرد گھومتی ہے۔
معروف شاعر جاوید اختر، ان کی اہلیہ اور اداکارہ شبانہ اعظمی، اور بالی وڈ میں اداکاری اور ہدایت کاری کے جوہر دکھانے والے ان کے بیٹے فرحان اختر کو اس نشست میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔
جاوید اختر نے تقریب کی میزبانی کے فرائض سرانجام دینے والی کے سنگیتا دتا سے گفتگو میں مغل اعظم کی شاعرانہ کیفیت اور عظمت اور ہدایت کار کے آصف کے فن کے بارے میں گفتگو کی۔
اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے جاوید اختر نے کہا کہ پرانے دور کی فلموں میں اظہارِ عشق کا تعلق دوری اور بچھڑ جانے کے بارے میں ہوتا تھا بنسبت حالیہ دور کی فلموں میں۔ لیکن ان کے بیٹے فرحان اختر نے اپنی رائے دی کہ فلموں میں محبت کی کہانیاں اسی دور سے مسابقت رکھتی جس دور میں وہ بنائی جاتی ہیں اور نوجوان فلم بینوں کے اپنے تجربات سے مساوی ہوتی ہیں۔
شبانہ اعظمی نے اپنی گفتگو میں انڈین فلموں میں خواتین کی آزادی کی اہمیت کے بارے بات کی۔
انھوں نے کہا کہ مغل اعظم جیسی فلموں میں ایک کنیز بھی بادشاہ کے سامنے اپنے حق کے لیے کھڑی ہو سکتی تھی۔ انھوں نے آج کے دور میں بنائی جانے والی فلموں میں ہیروئن کے بدلتے ہوئے کردار پر بھی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ وہ اب محض ناچنے یا گانے کی حد تک محدود نہیں ہیں۔
اداکارہ ودیا بالن اور عالیہ بھٹ کی مثال دیتے ہوئے شبانہ اعظمی نے کہا کہ ان دونوں نے مشکل کردار ادا کیے اور انڈین فلموں میں خواتین کے کردار کو بدلنے میں مدد دی۔
انھوں نے اپنی رائے دی کہ ‘مجھے صرف آئٹم نمبر سے شکایت ہے۔ مجھے خواتین کرداروں کو چھوٹے کپڑے پہننے سے کوئی شکایت نہیں ہے لیکن آئٹم نمبروں میں ان اداکاراؤں کو صرف مرد کی خوشی اور رغبت تک محدود کر دیا جاتا ہے۔’
مجھے صرف آئٹم نمبر سے شکایت ہے۔ مجھے خواتین کرداروں کو چھوٹے کپڑے پہننے سے کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن آئٹم نمبروں میں ان اداکاراؤں کو صرف مرد کی خوشی اور رغبت تک محدود کر دیا جاتا ہے۔’
شبانہ اعظمی
تقریب میں ان تینوں مہمانوں نے اس کے بعد اپنی اور دوسروں کی بنائی ہوئی فلمیں جیسے شعلے اور لشکیا کے بارے میں بھی گفتگو کی۔
تقریب کے دوسرے حصے میں جاوید اختر نے اپنی شاعری پڑھی جس کا شبانہ اعظمی اور فرحان اختر نے ترجمہ کیا۔
تقریب میں شرکت کرنے والوں فلم سازی کی مؤرخ نسرین منی کبیر، ہدایت کار فیروز عباس خان ، اداکار عرفان خان اور کئی دوسرے مشہور نام شامل تھے۔