ممتاز پاکستانی جناب افتخار عارف(ستارۂ امتیاز، ہلال امتیاز ،اعزازات کے حامل) کی ولادت لکھنؤ کے مشہور محلے فرنگی محل(جوہری محلہ) میں21/ مارچ 1943ء کو ہوئی تھی۔ افتخاعارف یوں ےتو منھ میں سونے کا چمچہ لیکر نہیں میں پیدا ہوئے تھے لیکن 1965ء میں پاکستان ہجرت کے بعد انہیں نہ صرف علمی مرتبہ بلکہ شہرت و خوشحالی اور وہ نیک نامی میسر آئی جو خوش نصیب ترین افراد کا مقدر ہوتی ہے۔متوسط لیکن تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہونے والے.
اس ہونہار ادیب نے لکھنؤ کی آخری بہار دیکھ کر مزید سبزہ تلاش کرنے کے لئے پاکستان کوچ کیا تھا جہاں سماجیات میں ایم اے اور ادبیات کا عرفان رکھنے والے اس شاعر نے جوش، فیض اور پروین شاکر سےموجودہ نوجوان نسل تک دنیائے شعر و ادب کو اپنے سوز و ساز سے متاثر کرتے ہوءے اُس چھتنار درخت کی شکل اختیار کرلی جسکے سائے میں پھلواری اور اطراف میںدیوزاد درختوں کی روئیدگی اور نمویابی اپنا جلوہ دکھاتی نظر آتی ہے ۔
لکھنؤ کا تربیت یافتہ ذہن پاکستانی ادیبوں اور شعراء کی دانش کو آنکنے اورانہیں سمت ہوا بتانے میں نہ صرف کامیاب ہوا بلکہ مکالمہ، تربیت اور شعر گوئی کی سمت میں پانچ دہائیوں میں ایسے ایسے دروازے کھولے جن پر ہاتھی جھومتے اور مینائیں بولتی نظر آتی ہیں۔ اکبری دروازے پر لٹکی ہوئی شمشیر سے کاظمین کی دھار دار لیکن سوگوار فضا کا عکس افتخار عارف کی آنکھوں اور نظم و نثر میں یکساں طور پر نظر آتا ہے۔
فتخار عارف
فرنگی محل اور خانوادہ غفراں مآب کی متانت اور ثقافت و شرافت افتخار عارف کی شکل میں متشکل نظر آتی ہے ۔ افتخار حسین عارف اب افتخار عارف نے 1957ء میں ہائی اسکول،1960ء میں انٹر میڈیٹ جوبلی کا لج لکھنؤ سے کرنے کے بعد 1962ء میں بی اے اور 1964ء میں ایم اے سوشیالوجی لکھنؤ یونیورسٹی سے کیا تھا ۔
ان سے اپنی پسندیدہ کتاب کے بارے میں جب سوال کیا گیا تو اُن کا جواب نہایت
حقیقت پسندانہ تھا وہ کسی خاص کتاب کا نام لیے بغیر اپنے ابتداءی حالات کے متعلق کہتے ہیں کہ’’ شروع میں رومانوی دور بہت جلد ختم ہو گیا تھا، زمانہ مشکل تھا ، مسائل بہت تھے، ہجرت کرکے اکیلا پاکستان آگیا والدین تادم آخر ہندوستان ہی میں رہے۔ دوسری والدہ سےہونے والے بھائی بہن اب بھی ہندوستان میں مقیم ہیں‘‘۔
پاکستان آنے کے بعد ابتدائی دنوں میں غم روزگار کے سلسلے میں کچھ یوں بتاتے ہیں،’’شروع میں ریڈیو پاکستان میں خبریں پڑھیں ٹیلی ویژن پر’’کسوٹی‘‘عنوان سے پروگرام نشریات کے بعد جلدہی مشرقی اور مغربی پاکستان میں شہرت حاصل ہوگئی۔ چھوٹی عمر میں اعلیٰ عہدہ مل گیا ، پاکستان ٹیلی ویژن میں اسکرپٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کیا۔ 1977ءمیں استعفیٰ دے کر برطانیہ چلا گیا ۔
برطانیہ میں 13 برس قیام رہا۔
آغا حسن عابدی کی سرکردگی میں قائم شدہ بی سی سی آئی میں ملازمت کا سلسلہ رہا۔ ادارہ سازی کی اور سر براہ مقرر ہوا۔ آغا حسن عابدی، مشتاق احمد یوسفی ، ابن حسن برنی ، صالح یعقوب اورالطاف گوہر ٹرسٹی تھے۔ ان لوگوں نے مجھے ایگزیکٹیو انچارج مقرر کیا ۔ لندن کے مرکزی علاقے پکاڈلی میں اردو مرکز کا قیام عمل میں آیا۔ اس مرکز میں لا ئبریری اور ریڈنگ روم کی سہولت میسر تھی‘‘۔
مرکز کی سماجی اور علمی حیثیت کی طرف اس کی کار کردگی سے ان کے درج ذیل بیان سے روشنی پڑتی ہے۔ افتخار صاحب کے الفاظ میں ’’ہمارا اردو مرکز مختلف تقریبات اور خطبات و تقاریر کے اہتمام کے ساتھ ساتھ تحقیق و اشاعت کا کام بھی کرتا تھا۔ کلیات میراں جی، کلیات حبیب جالب اور اردو کی مختصر تاریخ کی اشاعت اسی کی جانب سے عمل میں آئی ۔
لندن یونیورسٹی میں ہر ماہ اردو شعر و ادب سے متعلق جلسوں کا انعقاد بھی کیا جاتا تھا۔ ہر بڑا ادیب وہاں پہنچا۔ ملک راج آنند، آل احمد سرور، اختر الایمان ، رام لعل، علی سردار جعفری، قرۃ العین حيدر، شمس الرحمٰن فاروقی، گوپی چند نارنگ، کنور مہندر سنگھ بیدی خلیق انجم، مغنی تبسم ، جگن ناتھ آزاد، بلراج کومل اور کمار پاشی ہندوستان سےاور پاکستان کے فیض احمد فیض ،ممتاز مفتی ، مختار مسعود، احمد ندیم قاسمی، جمیل جالبی، جمیل الدین عالی،مجتبیٰ حسین، سبط حسن، آفتاب احمد، فارغ بخاری، خاطر بخاری، احمد فراز، زہرہ نگاہ، ادا جعفری اور فہمیدہ ریاض کے نام میری یادداشت میں فوری طور پر آگئے ہیں۔ ان کے علاوہ امریکہ، یورپ اور دیگر علاقوں سے اینی میری شمل، محمدعمر میمن، فرانسس پر چٹ،رالف رسل، لد میلا وسیلووا، انا سورووا ، رسول حمزہ اور چنگیز اتماتوف بھی اس کے اجلاسوں میں پہنچے تھے ۔‘‘
اس عالمی اردو مرکز کے قیام کا مقصد بتاتے ہوئے افتخار عارف صاحب نے بہت عمدہ بات کہی اُن کے الفاظ ملا حظہ ہوں ، ’’ہمارا مقصد ہندوستان اور پاکستان کے ادبیوں کو سیاسیات سے بالا تر ہو کر ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوشش کرنا تھا ۔ آپ (راقم الحروف) نے جو تحریک، تحریک کےمعنی اور ضرورت کی بات پوچھی ہے تو میرا عرض کرنا ہے کہ تبدیلی ناگزیر ہے ، وقت کے ساتھ ساتھ تغیر و تبدیلی ایک آفاقی حقیقت ہے ۔
معاشرے کو بہتر بنانے کے لئے خلق خدا کے لئے آسانی پیدا کر کرنے کے لئے اور ا جتماعی عدل کو یقینی بنانے کے لئے جب کسی نظریئے کی بنا پر کوئی راستہ استوار کیا جاتا ہے تو وہ ایک تحریک کی شکل اختیار کرجاتا ہے۔1935 ء میں لندن میں ہندوستان کےپانچ طلباء نے جن میں سجاد ظہیر، ملک راج آنند، محمد دین تاثیر،اور جیوتی گھوش بھی شامل تھے ترقی پسند تحریک کی بنیاد رکھی تھی ۔یہی تحریک ہندوستان پہنچی اور 1936ء میں لکھنؤ کے رفاہ عام کلب میں ترقی پسند مصنفین کی بنیاد پڑی۔اس کا نفرنس کی صدارت منشی پریم چند نے کی تھی۔
ترقی پسندی اور جدیدیت کے تعلق سے ایک سوال کے جواب میں وہ یوں گویا ہوئے۔’’ ترقی پسند تحریک شروع میں آزادی، امن اور مظلوم و مجبور طبقوں کے حقوق سے عبارت تھی مگر بعد میں بعض بڑے ترقی پسند ادیب جو کمیونسٹ تھے انھوں نے اس کو ایک سیاسی جماعت سے جوڑ دیا ورنہ پہلے حسرت موہانی اورمولانا سید سلیمان ندوی جیسے مشہور علماء بھی اس میں شامل تھے۔
اور کٹّر اشتراکی مُلک راج آنند اور ڈاکٹر عبدالعلیم بھی اس کا حصہ تھے۔ جہاں تک جدیدیت کا تعلق ہے جدیدیت ایک فکری تحریک کے طور پر بیسویں صدی کی ابتدا میں سامنے آئی، انگریزی ادب میں ورجینیا وولف، جیمس جوائس اور ڈی ایچ لارنس اس سلسلے میں تو خاص خاص تھے۔ الیٹ اور ایزرا پاؤنڈ نے اسے آگے بڑھانے میں اعلیٰ کردار ادا کیا۔ ترقی پسند ادب کو معاشرے کی اجتماعی صورت حال سے جوڑتے تھے جبکہ جدیدیت کےعلمبردار فردکی انفرادی صورت حال کو ترجیح دیتے تھے۔ فلسفہء وجودیت کےسرخیل سارتر نے ان دونوں نظریوں کے مابین ایک امتزاجی نظریہ پیش کیا جس میں فرد کی وجودی مرکزیت کا اعتراف کرتے ہوئے اسکی اجتماعی ذمہ داریوں پر بھی اصرار کیا جاتا تھا‘‘۔
پاکستان میں پیدا ہونے والے خصوصی ادب کے ضمن میں ان کا کہنا ہے ’’قیام پاکستان کے بعد پاکستان میں اسلامی ادب اور پاکستانی ادب کے رجحانات کو بھی آگے بڑھانے کی کوشش کی گئی۔ نیا ملک اپنی شناخت کے مرحلے میں تہذیبی پہچان کے حوالے سے ایک نئی صورتحال سے دوچار تھا۔ پاکستان ایک خطہء زمین تھا جس میں صدیوں پرانی تہذیبی روایت کا تسلسل بھی تھا، موہن جودڑو ،ہڑپا ،تکشلااور گندھارا تہذیبوں کے آثار بھی تھے اور اسلامی تہذیبی روایت کا ایک زندہ تسلسل بھی تھا ۔
موہن جودڑو اور تکشلا زندہ حقیقتیں ہیں اگر ہم ان کی تہذیبی سطح پر متعارف کرائیں تو ان کو اسی پس منظر میں دیکھا جانا چاہئے۔ قرآن حکیم میں حجاز مقدس اور عربوں کے تاریخی وتہذیبی آثار کا ذکر دایمی تواتر سے تو ہے ہی ۔‘‘
ہندوستان کے ادبی منظرنامے کے تعلق سے بھی اُن کے الفاظ ملاحظہ ہوں’’قیام پاکستان کے بعد ہندوستان میں بالخصوص اتر پردیش جہاں میں نے 20 برس گزارے اردو اور مسلمانوں دونوں کو ایک نئی صورتحال کا سامنا تھا مگر بعد میں صورتحال بہتر ہوتی گئی اور اب ہندوستان میں اردو زبان و ادب پر تو جہ دی جا رہی ہے ۔
یہ بات ظاہر ہے کہ اگر ابتدائی سطح پر تعلیم و تدریس کا بندو بندوبست نہ موجود ہو تو بڑے سے بڑا کام بھی آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔ ہندوستانی جامعات میں تحقیق کا کام بہت اچھا ہو رہا ہے، اردو تنقید میں ہندوستانی نقادوں نے رجحان ساز کارنامے انجام دیئے ہیں آل احمد سرور، احتشام حسین ، رشید حسن خان، اسلوب احمد انصاری ، مالک رام ، امتیاز حسن عرشی، گوپی چند نارنگ، شمس الرحمٰن فاروقی، وارث علوی ، مغنی تبسم، خلیل الرحمٰن اعظمی، وحید اختر اور نیر مسعود سے انیس اشفاق تک اس سلسلے میں بہت بڑاکام ہو رہا ہے ‘‘۔
پاکستانی غزل کیا ژولیدہ بیانی اور تکرار سے دو چار نہیں ہے، اس سوال کے جواب میں افتخار عارف کہتے ہیں، ’’ایسا نہیں ہے، تخلیقی کام پاکستان میں نسبتاً بہتر ہورہا ہے۔ فیض ،راشد، مجید امجد، منیر نیازی ، ساقی فاروقی اور وزیر آغا نےنظم میں عمدہ تجربے کئے ہیں اور غزل میں احمد فراز اور جون ایلیا نےاپنی حیثیت منوائی ہیں ۔
جدید پاکستانی اردو غزل میں ژولیدہ بیانی کے سوال کے تعلق سے ان کا کہنا ہے کہ’’ کثرت مطالعہ بھی اس کا سبب ہو سکتا ہے، یہ ہر جگہ ہوتی ہے وقت اس سلسلے میں فیصلہ کرتا ہے جیسے غالب کی مثال ہماے سامنے ہے۔
ذہین و طبّاع، وسيع المطالعہ ممتاز شاعر اور ادیب شہیر افتخار عارف کی کم وبیش 99 فیصد گفتگو اصل شکل میں درج بالا ملاقات کی تفصیل میں موجود ہے۔،قارئین اردو اسکی اہمیت کا فیصلہ خود کر سکتے ہیں۔ دانش حاضر کا اعتراف زبان اور ادب و شعر کو رفعتیں بخشتا ہے، تاریخ ادب میں ایسا مشاہدے میں آتا رہا ہے۔