جنگِ آزادی کا موضوع انڈیا کے آزاد ہونے سے پہلے ہی فلموں میں مقبول ہو چکا تھا۔ سالِ رواں آزادی کے 70 برس پورے ہونے کی نوید دیتا ہے اور اِن سات عشروں میں انڈیا نے اپنے اُن جانباز سپاہیوں اور وطن پر ست لیڈروں پر بہت سی فلمیں بنائی ہیں جو انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر لیے پھرتے تھے۔
دلیپ کمار کی ایک ابتدائی فلم شہید (1948) سے لیکر 1965 میں بننے والی منوج کمار کی ‘شہید’ تک اور سنہ 1953 کی اولین ٹیکنی کلر پروڈکشن ‘جھانسی کی رانی’ سے لیکر کنگنا رناوت کی زیرِ تکمیل ‘دی کوئین آف جھانسی’ تک، آزادی کے موضوع پر بالی وڈ نے تسلسل کے ساتھ کام کیا ہے۔
دلیپ کمار کی ‘شہید’ انگریزوں کے خلاف ہندوستان کے باغی نوجوانوں کی جدوجہد کا بیانیہ تھا جبکہ منوج کمار کی ‘شہید’ میں معروف باغی بھگت سنگھ کی زندگی کو فلمایا گیا تھا۔ بھگت سنگھ جس نے بغاوت کے الزام میں 23 برس کی عمر میں پھانسی کی سزا پائی، فلم سازوں کا من چاہا کردار رہا ہے۔
سنہ 2002 میں بھگت سنگھ کی زندگی پر ایک ساتھ تین فلمیں بنیں اور بہت حد تک کامیاب بھی رہیں۔ لیکن اس صدی کے ابتدائی برسوں میں ایسا کیا ہوا کہ حبِ وطن کے موضوع پر دھڑا دھڑ فلمیں تیار ہونے لگیں؟
غالباً اس رحجان کا سبب عامر خان کی انتہائی کامیاب فلم ‘لگان’ تھی، جس میں قحط زدہ غریب کاشتکاروں کا ایک گاؤں دکھایا گیا ہے جو اپنے انگریز حاکموں سے لگان میں چھوٹ مانگ رہے ہیں۔
لگان ایک بہت مہنگی پروڈکشن تھی اور اس طرح کے موضوع کو فلمانے کا خطرہ صرف عامر خان جیسا جیالا فلم ساز ہی مول لے سکتا تھا۔ اس فلم کی شاندار کامیابی کے بعد عامر خان نے ‘منگل پانڈے’ پروڈیوس کی۔
یہ کردار ایسٹ انڈیا کمپنی میں بھرتی ہونے والا ایک انڈین سپاہی تھا جو سنہ 1857 کی جنگِ آزادی میں بغاوت کی پہلی چنگاری بنا۔ یہ فلم سنہ 2005 میں بنی اور اس کے ایک ہی برس بعد عامر خان نے جنگِ آزادی کے موضوع کو ایک بالکل نئے ڈھنگ سے فلمایا۔
اس نے زمانۂ حال کے پانچ کردار چنے۔ یونیورسٹی کے پانچ طالبِ علم جو کہ دورِ غلامی کے حریت پسند ہندوستانیوں پر ایک فلم بنانا چاہتے ہیں۔ عامر خان کی یہ انوکھی پیشکش ٰ’رنگ دے بسنتی’ کے نام سے سکرین کی زینت بنی اور اس نے تمام ناظرین کے ساتھ ساتھ ناقدینِ فلم کی تعریف و توصیف بھی حاصل کی۔
فلمی تاریخ کے کچھ ماہرین اس دلچسپ حقیقت کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ بغاوت کی خُو اور آزادی کی تڑپ انڈین فلم کی گھُٹی میں پڑی تھی کیونکہ سنہ 1913 میں بننے والی پہلی باقاعدہ فیچر فلم بھی حُبِ وطن کے موضوع سے عاری نہیں تھی۔
‘راجہ ہریش چندر’ نامی اس فلم کو انڈیا کی پہلی فلم قرار دیا جاتا ہے اور اس میں راجا کو ایک ایسے چال باز اور فتنہ ساز درویش سے پالا پڑتا ہے جو بزرگی اور درویشی کے پردے میں انتہا درجے کی مکاری دکھاتے ہوئے راجا کی سلطنت پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنا لیتا ہے۔
مطالعۂ فلم کے ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ درویش اصل میں غیر ملکی تاجروں کے روپ میں آنے والے انگریز قابضین کی علامتی شکل تھی۔ سینسر سے بچانے کے لیے انگریز آمروں کو مقامی درویش کی شکل میں پیش کیا گیا تھا۔