جکارتہ، انڈونیشیا: انڈونیشیا کے صدر پرابوو سوبیانتو نے بدھ کو کہا کہ ان کا ملک غزہ میں اسرائیلی جارحیت میں یتیم ہونے والے فلسطینی بچوں کو عارضی پناہ فراہم کرے گا۔
سوبیانتو نے کہا کہ، “ہم زخمی یا صدمے میں مبتلا افراد اور یتیموں کو نکالنے کے لیے تیار ہیں، اگر وہ انڈونیشیا کو آنا چاہتے ہیں، تو ہم انھیں لے جانے کے لیے ہوائی جہاز بھیجنے کے لیے تیار ہیں،” سوبیانتو نے مزید کہا کہ انھوں نے اپنے وزیر خارجہ کو ہدایت کی ہے کہ فلسطینی حکام کے ساتھ انخلاء کے منصوبوں پر بات چیت کریں۔
انہوں نے کہا کہ انڈونیشیا تقریباً 1,000 متاثرین کی پہلی کھیپ کو اپنے ملک لانے کے لیے تیار ہے، جو اس وقت تک ملک میں رہیں گے جب تک کہ وہ اپنے زخموں سے مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہو جاتے اور غزہ کے محفوظ ہونے تک واپس نہیں جانا چاہتے۔ سوبیانتو نے کہا کہ یہ اقدام مستقل آبادکاری کے لیے نہیں ہے۔
سبیانتو نے ابوظہبی کے دورے سے قبل یہ پیشکش رکھی۔ سبیانتو مشرق وسطیٰ کے ایک ہفتہ طویل دورے پر ہیں جس کا پہلا اسٹاپ متحدہ عرب امارات ہے ۔ اس دورے میں ترکی، مصر، قطر اور اردن کے اسٹاپ بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ان ممالک کے ساتھ فلسطینیوں کے منصوبہ بند انخلاء پر مشاورت کریں گے، جن میں سے بعض نے انسانی وجوہات کی بنا پر فلسطینیوں کو قبول بھی کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دیگر ممالک نے انڈونیشیا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ کے تنازع کے حل کے لیے اپنا کردار بڑھائے۔ دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والی مسلم اکثریتی قوم طویل عرصے سے فلسطینیوں کی بھرپور حمایتی رہی ہے۔
سوبیانتو نے کہا کہ، یہ کچھ پیچیدہ ہے؛ یہ آسان نہیں ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ انڈونیشیا کی حکومت کو زیادہ فعال کردار ادا کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
غزہ جنگ، جو حماس کے 7 اکتوبر 2023 کو جنوبی اسرائیل پر حملوں سے شروع ہوئی تھی، اپنی تاریخ میں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان سب سے مہلک ثابت رہی ہے۔ جنگ نے پہلے سے ہی غریب غزہ میں ایک انسانی بحران کو بھڑکا دیا ہے۔
نتن یاہو نے اس ہفتے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے لیے واشنگٹن کا سفر کیا اور اپنے عوامی بیانات میں یرغمالیوں کی حالت زار کے لیے ہمدردی کی پیشکش کی لیکن جنگ کو معطل کرنے کے لیے کسی ابھرتے ہوئے معاہدے پر بہت کم روشنی ڈالی۔
ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ لیکن غزہ کے بارے میں ان کے جنگ کے بعد غزہ پر ان کے قبضے کے منصوبے اور اس کی آبادی کو منتقل کرنے کی تجویز نے مشرق وسطیٰ کے اتحادیوں کو حیران کر دیا ہے، جن کا کہنا ہے کہ فلسطینی آبادی کو طاقت کے ذریعے یا رضاکارانہ طور پر منتقل کرنے کی کوئی بھی بات چیت ایک نان اسٹارٹر ہے۔ جبکہ اسرائیل نے ٹرمپ کی تجویز کو قبول کر لیا ہے۔
اس دوران نتن یاہو اپنے انتہائی دائیں بازو کے سیاسی حلیفوں کی جانب سے حماس کے خاتمے تک جنگ جاری رکھنے کے لیے دباؤ میں ہیں۔
اسرائیلی جارحیت نے غزہ میں 50,000 سے زیادہ فلسطینیوں کو ہلاک کیا ہے، غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، مرنے والوں میں نصف سے زیادہ خواتین اور بچے ہیں۔