دنیا بھر میں اکثر ایسی رپورٹس سامنے آتی ہیں کہ جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوتا اور انہیں تشدد کا سامنا ہوتا ہے۔مگر امریکا کی ایک جیل میں قیدیوں کے ساتھ ایسے ‘غیر انسانی’ سلوک کا انکشاف ہوا ہے جو دنگ کردینے والا ہے۔
اوکلاہاما کاؤنٹی جیل کے 3 سابق عہدیداران کو قیدیوں کے ساتھ خراب سلوک پر مقدمے کا سامنا ہے اورر ان پر الزام ہے کہ وہ قیدیوں کو زبردستی بچوں کا گانا بے بی شارک سننے پر مجبور کرتے تھے اور وہ بھی بلند آواز میں باربار۔
ان افراد پر عائد کی جانے والی فرد جرم کے مطابق کم از کم 4 قیدیوں کو اس ‘غیرانسانی’ سلوک کا سامنا نومبر اور دسمبر 2019 میں ہوا۔
انہیں اٹارنی وزٹ روم میں کئی گھنٹوں تک بند رکھا جاتا اور ہتھکڑیاں لگا کر زبردستی کھڑا کیا جاتا اور بار بار بے شارک اونچی آواز میں سنایا جاتا۔
ان قیدیوں میں سے 2 کو ‘نظم و ضبط’ سیکھانے کے لیے رات گئے اٹھایا کر اس کمرے مین بند کیا گیا۔
جیل کے عہدیداران گریگری کورنیل بٹلر جونیئر، کرسٹین چارلس مائلز (دونوں کی عمر 21 سال تھی) جبکہ ان کے 50 سالہ سپروائرز کرسٹوفر ریمنڈ پر یہ فرد جرم عائد کی گئی۔
ڈسٹرکٹ اٹارنی ڈیوڈ پراٹر نے بتایا ‘یہ ایسا واقعہ تھا جس پر میں بت بن کر نہیں بیٹھ سکتا تھا، میں اس رویے کے خلاف مقدمے کو ترجیح دیتا’۔
گریگری کورنیل اور کرسٹین چارلس پر قیدیوں کے ساتھ ایسا سلوک کرنے کا الزام ہے جبکہ ان کے سپر وائزر نے ان کے سلوک سے واقف ہونے کے باوجود خاموشی اختیار کی۔
قیدیوں کے ساتھ ایسا سلوک کرنے والے دونوں اہلکاروں کے خلاف موسم گرما میں تحقیقات الزامات سامنے آنے کے بعد شروع ہوئی تھی، جس کے بعد وہ مستعفی ہوگئے تھے جبکہ ان کے سپروائزر نے بھی اپنا عہدہ چھوڑ دیا تھا۔
تحقیقات کرنے والوں نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ گریگری بٹلر نے تصدیق کی کہ وہ اس کمرے کو قیدیوں کو سزا دینے کے لیے استعمال کرتے تھے، جس کے لیے گانے کو چلا دیا جاتا۔
تحقیقات میں دریافت کیا گیا کہ اس سلوک سے قیدیوں کا ذہنی تناؤ بڑھ گیا۔
بےبی شارک ڈو ڈو گانا 2015 میں ریلیز ہوا تھا تاہم یہ اس وقت مقبول ہوا تھا جب 2017 میں ‘بےبی شارک چیلنج’ نامی نیا ٹرینڈ سامنے آیا۔
اس ٹرینڈ کا حصہ بنتے ہوئے لوگ بےبی شارک میں کیے گئے ڈانس کی نقل کرکے بےبی شارک کا ہیش ٹیگ استعمال کررہے تھے۔