انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے بورڈ آف گورنرز نے ایران سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایجنسی کے ساتھ کئے گئے حفاظتی اقدامات سے متعلق وعدوں پر مکمل طور پر عمل درآمد اور دو جوہری مقامات تک رسائی دی جائے۔آئی اے ای اے کی جانب سےجاری ایک بیان کے مطابق بورڈ آف گورنرز نے ایک قرارداد منظور کی جس میں ایران سے کہا گیا ہے کہ وہ آئی اے ای اے سے این پی ٹی سیف گارڈز ایگریمنٹ اور اضافی اقدامات پر عمل درآمد کے لیے مکمل تعاون کرے۔
قرارداد فرانس، جرمنی اور برطانیہ کی جانب سے پیش کی گئی اور 25 اراکین نے حمایت جبکہ 2 نے مخالفت کی اور 7 اراکین نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
آئی اے ای اے کی جانب سے یہ قرارداد ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے رواں سال مارچ اور جون میں ایران کے ساتھ ہونے والے رابطوں کے دوران کوششوں کے حوالے سے آگاہی کے بعد منظور کی گئی ہے۔
بیان کے مطابق ایران نے آئی اے ای اے کی نشان دہی کے دومقامات تک رسائی دینے سے انکار کیا جس کے حوالے سے ایجنسی کو خدشہ تھا کہ وہاں حفاظتی اقدامات پر مکمل طور پر عمل نہیں کیا جارہا ہے۔
ایجنسی کی جانب سے ایران کی ممکنہ طور پر غیر اعلانیہ جوہری سرگرمیوں سے متعلق پوچھے گئے سوالات کی وضاحت بھی نہیں دی گئی۔قرارداد میں ممالک کو حفاظتی اقدامات کی اہمیت اور ضرورت پڑنے پر آئی اے ای اے کو متعلقہ مقامات تک رسائی کی سہولت دینے پر زور دیا گیا ہے۔آئی اے ای اے نے کہا ہے کہ حفاظتی اقدامات پر مکمل عمل درآمدار کے ساتھ ایران کے جوہری پروگرام کے پرامن ہونے کی تصدیق کے لیے ایجنسی کا بنیادی اور آزادانہ کردار ہے۔
یاد رہے کہ یورپی ممالک نے گزشتہ برس ستمبر میں بھی ایران پر زور دیا تھا کہ وہ اقوام متحدہ کے جوہری معائنہ کاروں سے تعاون کرے۔
یورپی ممالک کی جانب سے مذکورہ بیان اس وقت سامنے آیا تھا جب تہران نے دھمکی دی تھی کہ امریکا اور اسرائیل کے غیرضروری دباؤ کے نتیجے میں بین آئی اے ای اے کی ایران میں سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوسکتی ہیں۔
برطانیہ، فرانس، جرمنی اور یورپی یونین کے خارجہ پالیسی چیف نے مشترکہ اعلامیے میں کہا تھا کہ ‘انہیں ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق تشویش لاحق ہے کہ تہران 2015 کے جوہری معاہدے میں طے شدہ مقدار سے زیادہ جدید سینٹری فیوجز لگا رہا ہے’۔
دوسری جانب امریکا نے 2018 دیگرعالمی طاقتوں کے ہمراہ ایران کے ساتھ کئے گئے جوہری معاہدے کو ختم کرکے ایران پر پابندیاں عائد کردی تھیں۔تاہم امریکا نے ایران پر پابندیوں کے باوجود معاہدے میں شامل دیگر ممالک کے ساتھ کئی معاملات میں نرمی رکھی تھی جس میں غیر ملکی کمپنیوں کو ایران کے مخصوص جوہری تنصیبات کے ساتھ کام کرنے کی اجازت بھی شامل تھی۔
امریکا کے اس اقدام کو معاہدے کے حامیوں نے عالمی ماہرین کے لیے ایران کے ایٹمی پروگرام تک رسائی کو ایک راستے سے تعبیر کیا تھا اور ادویات بنانے کے لیے استعمال ہونے والے چند مراکز کو انسانی بنیادوں پر اہم قرار دیا تھا۔