ایرانی حکام نے مزار پر فائرنگ کرکے کم از کم ایک شخص کو قتل کرنے والے مسلح شخص کو حراست میں لینے کے بعد مزید چار مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی خبر کے مطابق گرفتاری سے متعلق خبر سرکاری میڈیا نے آج رپورٹ کی۔
یہ حملہ ایران کے جنوب میں واقع صوبہ فارس کے دارالحکومت شیراز میں واقع شاہ چراغ کے مزار پر کیا گیا، اسی مقدس مقام پر ایک سال سے بھی کم عرصے کے دوران اسی طرح کا یہ دوسرا حملہ ہے۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا نے فارس کے صوبائی چیف جسٹس کاظم موسوی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ حملے سے تعلق کے الزام میں اب تک چار مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
ان 4 مشتبہ افراد کی گرفتاری اس مسلح شخص کے علاوہ ہے جس کی گرفتاری کا اعلان اتوار کی رات کمانڈر اسلامی انقلابی گارڈز کور فارس یداللہ بوعلی نے کیا تھا جو سرکاری ٹی وی پر بات کر رہے تھے۔
ارنا نے رپورٹ کیا کہ حملے میں ایک شخص کی ہلاکت کے علاوہ 8 افراد زخمی بھی ہوئے۔
فوری طور پر کسی گروہ نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن فارس کے صوبائی گورنر محمد ہادی ایمانیہ نے شدت پسند تنظیم داعش کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
انہوں نے سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ حملہ آور نے 2 دہشت گردوں کو پھانسی دینے کا بدلہ لینے کی کوشش کی جنہیں گزشتہ سال اسی طرح کا حملہ کرنے کا مجرم ٹھہرایا گیا تھا۔
چھبیس اکتوبر کو مزار پر فائرنگ کے نتیجے میں 13 افراد ہلاک اور 30 زخمی ہو گئے تھے، بعد میں داعش نے اس حملے کی ذمے داری کا دعویٰ کیا تھا۔
عدلیہ کی آن لائن نیوز ویب سائٹ میزان نے کہا کہ ایران نے 8 جولائی کو 2 افراد کو فساد فی الارض ، مسلح بغاوت اور قومی سلامتی کے خلاف کام کرنے کے جرم میں سرعام پھانسی دی۔
اس کیس کے تین دیگر مدعا علیہان کو داعش کے رکن ہونے کی وجہ سے پانچ، پندرہ اور پچیس سال قید کی سزا سنائی گئی۔
نومبر میں ایران نے کہا کہ افغانستان، آذربائیجان اور تاجکستان سے 26 ’تکفیری دہشت گردوں‘ کو اجتماعی فائرنگ کے الزامات کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا ہے۔
شیعہ اکثریت آبادی والے ملک ایران میں تکفیری کی اصطلاح عام طور پر عسکریت پسندوں یا بنیاد پرست سنی اسلام کے حامیوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
شاہ چراغ کے مزار میں آٹھویں شیعہ امام، امام رضا کے بھائی احمد مزار بھی واقع ہے، اسے جنوبی ایران کا مقدس ترین مقام سمجھا جاتا ہے۔
گزشتہ سال حملے کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب کہ ایران میں خواتین کے لباس سے متعلق سخت قوانین کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار 22 سالہ مہسا امینی کی موت کے بعد ملک گیر احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے۔