ایران نے پیراملٹری فورس کے اہلکار کو قتل کرنے کے الزام میں 5 افراد کو پھانسی کی سزا سنائی جب کہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں نے اقدام کو ’خوف پھیلانے‘ اور مہسا امینی کی موت کے خلاف ہونے والے مظاہروں کو روکنے کا حربہ قرار دیتے ہوئے فیصلے کی مذمت کی۔
اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق عدلیہ کے ترجمان مسعود سیتاویشی نے نیوز کانفرنس میں بتایا کہ 3 بچوں سمیت مزید 11 افراد کو قتل کے الزام میں طویل قید کی سزا سنائی گئی ہے، انہوں نے کہا کہ ملزمان سنائی گئی سزا کے خلاف اپیل کی جا سکتی ہے۔
استغاثہ نے بتایا کہ پیرا ملٹری کے اہلکار 27 سالہ روح اللہ کو احتجاج کے دوران قتل کیے گئے شہری حادث نجفی خراج عقیدت پیش کرنے والے مظاہرین نے برہنہ کرکے قتل کردیا تھا۔
حادث نجفی کو 21 ستمبر کو میسا امینی کی موت کے بعد شروع ہونے ملک گیر مظاہروں کی لہر کے دوران قتل کردیا گیا تھا، خیال رہے کہ ایران کے کرد علاقے سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ مہسا امینی کی 16 ستمبر کو ایران کی پولیس کی حراست میں انتقال کر گئی تھیں، جنہیں اخلاقی پولیس نے ’غیر موزوں لباس‘ کے باعث گرفتار کرلیا تھا، ان کی موت کے بعد سے ایران بھر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، جو 1979 کے انقلاب کے بعد حکومت کے لیے سب سے بڑے چیلنجز میں سے ایک تصور کیا جارہا ہے ۔
گزشتہ ہفتے ایک حیران کن پیش رفت سامنے آئی جب ایران کے پراسیکیوٹر جنرل محمد جعفر منتظری نے کہا کہ اخلاقی پولیس یونٹس جسے گشتِ ارشاد (’گائیڈنس گشت‘) کہا جاتا ہے اسے بند کر دیا گیا ہے لیکن ان کے تبصروں پر ابھی تک کسی سرکاری اعلان کے بعد عمل ہونا باقی ہے جب کہ اس نے بڑے پیمانے پر شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔
عدلیہ کے ترجمان نے کہا کہ پیرا ملٹری اہلکار روح اللہ 3 نومبر کو تہران میں چھریوں، پتھروں، لاتوں گھونسوں کے حملے اور سڑک پر گھسیٹے جانے کے بعد ہلاک ہوگیا تھا۔
مقتول کا تعلق ریاست کی منظور شدہ رضاکار فورس ایران کی طاقتور اسلامی انقلابی گارڈ کور سے منسلک باسج ونگ سے تھا۔
سزائے موت پانے والے پانچوں افراد کو ’فساد فی الارض‘ کا مجرم قرار دیا گیا، یہ جرم ایران میں اسلامی شریعت کے قانون کے تحت سب سے سنگین جرائم میں سے ایک ہے۔
مسعود سیتاویشی نے کہا کہ خاتون سمیت دیگر 11 کو ’فسادات میں ملوث ہونے‘ پر طویل قید کی سزا سنائی گئی، اس فیصلے کے بعد مظاہرے کرنے پر سزائے موت پانے والوں کی تعداد 11 ہو گئی ہے۔
ناروے میں میں موجود غیر سرکاری تنظیم ایران ہیومن رائٹس نے سزاؤں کی مذمت کی، آئی ایچ آر کے ڈائریکٹر محمود امیری-مغدم نے کہا کہ ان لوگوں کو غیر منصفانہ عمل کے تحت صفائی کا مناسب موقع دیے بغیر سزا سنائی گئی، ان سزاؤں کا مقصد خوف پھیلانا اور لوگوں کے احتجاج کو روکنا ہے، کریک ڈاؤن جس میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوچکے کے باوجود آن لائن پوسٹ کی گئی تصاویر میں دکھایا گیا کہ منگل کے روز ملک بھر کے شہروں میں دکانیں بند تھیں جبکہ ہڑتال دوسرے روز یوم طلبہ پر ختم ہوئی۔
اوسلو میں موجود حقوق گروپ نے 29 نومبر کو جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار میں کہا کہ کم از کم 448 افراد ملک گیر جاری مظاہروں میں سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے۔
ایران جو امریکا اور اس کے اتحادیوں برطانیہ اور اسرائیل پر فسادات اور مظاہروں کو بھڑکانے کا الزام لگاتا ہے، اس نے ہفتے کے روز کہا کہ مظاہروں کے آغاز کے سے اب تک 200 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ ایک جنرل نے گزشتہ ہفتے ہلاکتوں کی تعداد 300 سے زیادہ بتائی ۔
کریک ڈاؤن
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ ایران اس وقت چین کے سوا کسی بھی ملک سے زیادہ لوگوں کو سالانہ سزائے موت دیتا ہے۔
لندن میں موجود انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق سرکاری رپورٹوں کی بنیاد پر کم از کم 21 مظاہرین پر ایسے جرائم کا الزام عائد کیا گیا جن کے تحت ان کو پھانسی کی سزا دی جاسکتی ہے۔
اس جاری کریک ڈاؤن کےدوران ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں 40 غیر ملکی اور نامور اداکار، صحافی اور وکلا بھی شامل ہیں۔
یورپی ممالک سے منسلک نامعلوم انسانی حقوق گروپ کے ایک درجن مبینہ ارکان بھی شامل ہیں جن پر تخریب کاری کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام ہے۔
تہران کے پاسداران انقلاب نے کہا کہ انہوں نے ایک نیٹ ورک کے 12 ارکان کو گرفتار کیا ہے جن کے بیرون ملک روابط ہیں، ملزمان جرمنی اور نیدرلینڈز میں رہنے والے انقلابی فورس مخالف ایجنٹوں کی رہنمائی میں ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور تخریبی کارروائیاں کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔