ایران نے خبردار کیا ہے کہ تہران پر اقتصادی پابندیاں برقرار رہیں تو جوہری ہتھیاروں کی تیاری شروع کرسکتا ہے۔ غیرملکی خبر ایجنسی اے پی کے مطابق سرکاری ٹیلی ویژن پر ایرانی انٹیلی جنس کے وزیر محمود علوی نے کہا کہ ایران جوہری پروگرام دوبارہ شروع کرسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا جوہری پروگرام پُرامن ہے اور سپریم لیڈر کے فتوے میں جوہری ہتھیاروں سے منع کیا ہے لیکن اگر وہ (امریکا) ایران کو اس طرف دھکیل دیتے ہیں تو یہ ایران کا قصور نہیں بلکہ اس کو دھکیلنے والوں کا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ’اگر ہمیں کونے میں دھکیلا گیا تو اس طرح کا برتاؤ اپنا سکتے ہیں‘۔
ایرانی وزیر نے مزید کہا کہ ایران کا موجودہ حالات میں جوہری ہتھیاروں کی طرف بڑھنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
ایرانی وزیر کا بیان ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب حال ہی میں اقوام متحدہ کی اعلیٰ عدالت نے کہا تھا کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران پر عائد جوہری پابندیوں کے فیصلے کو بدلنے کی درخواست پر سماعت ہو سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کی عدالت کی جانب سے مذکورہ بیان سامنے آنے کے بعد واشنگٹن نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پابندیوں کے خلاف مقدمہ عدالت کے دائر اختیار سے باہر ہے۔
تہران نے الزام لگایا ہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2015 کے جوہری معاہدے کو منسوخ کرکے یورپی اتحادیوں کو مایوس کیا اور تہران کے خلاف پابندیوں کو دوبارہ فعال کرکے دونوں ممالک کے مابین 1955 میں دوستی کے معاہدے کی خلاف ورزی کی۔
ٹرمپ نے 2018 میں یک طرفہ طور پر ایران کے جوہری معاہدے سے امریکا کی دست برداری کا اعلان کردیا تھا جہاں سابقہ معاہدے کے تحت ایران نے اقتصادی پابندیوں کے خاتمے کے بدلے اپنی یورینیم کی افزودگی کو محدود کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی، ٹرمپ نے معاہدے سے دستبردار ہونے کی وجہ ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام، اس کی علاقائی پالیسیوں اور دیگر امور کو قرار دیا تھا۔
جب امریکا نے پابندیاں بڑھا دیں تو ایران نے بتدریج اور عوامی سطح پر معاہدے کی حدود کو ترک کردیا کیونکہ بڑھتے ہوئے کشیدہ حالات و واقعات کی وجہ سے دونوں ملک سال کے آغاز میں جنگ کے قریب آ گئے تھے۔
2015 کے جوہری معاہدے کے تحت ایران نے فورڈو میں یورینیم کی افزودگی روکنے اور اس کے بجائے اسے “ایٹمی، طبیعیات اور ٹیکنالوجی کا مرکز” بنانے پر اتفاق کیا تھا۔
لوئس نے کہا تھا کہ یہ مقام ایران کے جوہری معاہدے کے نتیجے میں ہونے والے مذاکرات کا ایک اہم مرکز تھا، امریکا ایران پر اسے بند کرنے پر اصرار کرتا رہا ہے جبکہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی اسے سرخ لکیر قرار دیتے رہے ہیں۔
معاہدے کے خاتمے کے بعد ہی ایران نے وہاں پر یورینیم افزودگی کا عمل دوبارہ شروع کردیا تھا۔