تہران: ایران نے کہا ہے کہ اس نے اپنی غیراعلانیہ جوہری تنصیبات سے متعلق دستاویزات اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کو بھیج دی ہیں اور اس کی بدولت وہ 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے مزید ایک قدم قریب پہنچ گیا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ایران نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے کچھ معائنوں پر پابندی لگا دی ہے جہاں اس سے قبل مذکورہ ایجنسی نے ایران سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ غیر اعلانیہ مقامات پر جوہری مواد کی سابقہ موجودگی سے متعلق شکوک و شبہات کو دور کرے۔
ایران کے جوہری توانائی کے ادارے کے سربراہ محمد اسلامی نے کہا کہ ہم نے 20 مارچ کو وہ دستاویزات فراہم کیں جو ہمیں بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کو بھیجنی تھیں۔
انہوں نے ایک نیوز کانفرنس میں مزید کہا کہ زیادہ تر امکان یہی ہے کہ ایجنسی کے نمائندے جوابات کا جائزہ لینے کے بعد اپنی حتمی رپورٹ تیار کرنے کے لیے ایران آئیں گے۔
محمد اسلامی نے کہا کہ مارچ میں ایران اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے درمیان طے پانے والا ایک معاہدہ چار تنصیبات سے متعلق مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک جگہ کے بارے میں ابہام اب حل ہو چکا ہے اور ہم پر امید ہیں کہ (باقی مسائل سے متعلق) دیگر تین تنصیبات کو 21 جون تک بند کر دیا جائے گا۔
5 مارچ کو بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سربراہ رافیل گروسی نے ایران کا دورہ کیا اور کہا کہ بین الاقوامی ایجنسی اور تہران نے عالمی طاقتوں کے ساتھ ملک کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے اہم مسائل کے حل پر اتفاق کیا ہے۔
محمد اسلامی کا بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ویانا میں 2015 کے معاہدے کی بحالی کے لیے بات چیت ہوئی ہے جسے باضابطہ طور پر مشترکہ جامع پلان آف ایکشن کے نام سے جانا جاتا ہے اور جو تقریباً ایک ماہ سے تعطل کا شکار ہے۔
اس معاہدے نے ایران کو اس کے جوہری پروگرام پر روکنے کے نتیجے میں پابندیوں میں ریلیف دیا تاکہ اس بات کی ضمانت دی جا سکے کہ تہران جوہری ہتھیار تیار نہیں کر سکتا حالانکہ ایران ہمیشہ اس خواہش سے انکار کرتا رہا ہے۔
لیکن امریکا نے یکطرفہ طور پر 2018 میں معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اور اقتصادی پابندیاں دوبارہ عائد کر دی تھی جس کے بعد ایران نے بھی اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا تھا۔
مزید پڑھیں: ایران جوہری معاہدے کو مزید التوا میں نہیں رکھا جاسکتا، جرمنی
تقریباً ایک سال قبل شروع ہونے والے مذاکرات میں ایران کے ساتھ ساتھ فرانس، جرمنی، برطانیہ، روس اور چین براہ راست اور امریکا بالواسطہ طور پر شامل ہیں۔
لیکن بات چیت 11 مارچ کو اس وقت روک دی گئی تھیں جب روس نے اس ضمانت کا مطالبہ کیا تھا کہ یوکرین پر اس کے حملے کے بعد عائد مغربی پابندیاں ایران کے ساتھ اس کی تجارت کو نقصان نہیں پہنچائیں گی۔
کچھ دن بعد روس نے کہا تھا کہ اسے ضروری ضمانتیں مل گئی ہیں البتہ تعطل اب بھی برقرار ہے کیونکہ ایران اور امریکا نے اس سلسلے میں تاخیر کے الزامات ایک دوسرے پر عائد کیے تھے۔