بدھ کے روز ایران نے امریکی میڈیا میں لگائے گئے ان “متضاد” الزامات کو مسترد کر دیا جن میں کہا گیا ہے کہ تہران سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قتل کی سازش میں ملوث تھا۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے کہا کہ ایران “ٹرمپ پر حالیہ مسلح حملے میں ملوث ہونے کو سختی سے مسترد کرتا ہے”۔ جبکہ اقوام متحدہ میں ایرانی مندوب نے کہا کہ امریکی صدارت کے لیے ریپبلکن صدارتی امیدوار کو قتل کرنے کے سابقہ منصوبے میں ایران کے ملوث ہونے کی بات “بے بنیاد ہے”۔
سی این این نے باخبر ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے منگل کی شام کو اطلاع دی تھی کہ امریکہ کو گذشتہ چند ہفتوں میں ایک ذریعے سے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو قتل کرنے کی ایرانی سازش کے بارے میں انٹیلی جنس معلومات موصول ہوئی تھیں۔
ایک امریکی اہلکارنے کہا کہ خفیہ سروس نے ٹرمپ کی مہم کو بڑھتے ہوئے خطرے سے آگاہ کیا تھا۔
وائٹ ہاؤس نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن کہا کہ ایسے کوئی اشارے نہیں ملے ہیں کہ ہفتے کے روز ٹرمپ کے قتل کی کوشش میں مشتبہ شوٹر کا کوئی غیر ملکی یا امریکی ساتھی تھا۔
جنوری 2020ء میں ایرانی فوجی کمانڈر قاسم سلیمانی کو قتل کرنے کے حکم پر ٹرمپ کے خلاف تہران کی انتقامی کارروائی کے بارے میں امریکی حکام برسوں سے فکر مند ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کی ترجمان ایڈرین واٹسن نے کہا کہ جیسا کہ ہم نے کئی بار کہا ہے ہم ٹرمپ انتظامیہ کے سابق اہلکاروں کے خلاف برسوں سے ایرانی دھمکیوں کا سراغ لگا رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ”یہ دھمکیاں قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ لینے کی ایران کی خواہش سے پیدا ہوئی ہیں۔ ہم اسے قومی اور داخلی سلامتی کا اعلیٰ ترجیحی معاملہ سمجھتے ہیں”۔
ایک امریکی اہلکار نے خبر رساں ادارے رائیٹرز کو بتایا کہ قومی سلامتی کونسل کو بڑھتے ہوئے خطرے کا علم ہونے کے بعد اس نے سیکرٹ سروس سے رابطہ کیا، جس نے ٹرمپ کی حفاظت کے لیے وسائل اور صلاحیتیں فراہم کیں۔