برطانوی وزیرِ اعظم تھریسا مے نے صدر ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا مستقل دارلحکومت تسلیم کرنے اور تل ابیب سے امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے کے اعلان کو افسوسناک اور عاجلانہ قرار دیا ہے۔
مجھے دنیا کے ہر ملک کی جانب سے ٹرمپ کے اعلان کی مذمت پر جتنی خوشی ہے اتنا ہی صدمہ تھریسا مے کی جانب سے اظہارِ مذمت پر بھی ہے۔ آج سے ٹھیک سو برس پہلے دو نومبر 1917 ئکو برطانوی وزیرِ خارجہ لارڈ بالفور نے برطانوی یہودیوں کے رہنما اور صیہونی نظریے کے مرکزی ستون لارڈ والٹر روتھ چائلڈ کو سڑسٹھ صفحے کا وہ تاریخی خط بھیجا جس میں تسلیم کیا گیا کہ یہودیوں کو فلسطین واپسی اور وہاں اپنی مملکت بنانے کا حق ہے۔ جس وقت یہ خط لکھا گیا فلسطین سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ تھا۔ گویا کسی اور کے علاقے کو (عثمانی) کسی اور نے (برطانیہ) کسی اور کو (یہودی) الاٹ کردیا۔
اس اعلان کے ٹھیک چالیس روز بعد برطانوی جنرل سر ایڈمنڈ ایلن بی بیت المقدس میں فاتحانہ داخل ہوا اور وزیرِ اعظم ڈیوڈ لائڈ جارج نے کہا ’’دنیا کے مشہور ترین شہر پر قبضے کے بعد مسیحی دنیا نے مقدس مقامات کو دوبارہ حاصل کر لیا ہے‘‘۔ امریکی اخبار نیویارک ہیرلڈ کی سرخی تھی ’’برطانیہ نے چھ سو تہتر برس کے (مسلم) اقتدار کے بعد یروشلم کو آزاد کرا لیا۔ مسیحی دنیا میں خوشی کی زبردست لہر دوڑ گئی‘‘۔
اگلے تیس برس تک فلسطین برطانیہ کے قبضے میں رہا اور یہودی یورپ سے آ آ کر یہاں آباد ہوتے رہے۔ یہ وہ تحفہ تھا جو برطانیہ نے عربوں کو سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف برطانیہ کی حمایت میں کھڑے ہونے پر دیا۔ جب یہودیوں کی تعداد اتنی ہوگئی کہ وہ ایک چھوٹی سی مملکت قائم کرنے کے قابل ہو سکیں تو برطانوی انٹیلی جینس کی ناک کے نیچے یہودی انتہا پسند تنطیموں ہگانہ اور سٹیرن گینگ نے فلسطینیوں کو ان کی اجدادی املاک سے کھدیڑنے کا کام شروع کیا۔
عین اس وقت نیا نیا اقوامِ متحدہ بیچ میں صلح صفائی کے لیے کود گیا اور اس نے قابض اور مقبوض کی تمیز کیے بغیر مئی 1947ء میں فلسطین کی تقسیم کے منصوبے کا اعلان کر دیا۔ اس منصوبے کے تحت جو علاقے جس فریق کو ملنے تھے وہ تو ملنے ہی تھے مگر ایک سفارش یہ بھی تھی کہ چونکہ بیت المقدس تین الہامی مذاہب کا مقدس شہر ہے لہذا یہ شہر کسی ایک فریق کو دینے کے بجائے بین الاقوامی انتظام کے تحت رکھا جائے تا کہ ہر مذہب کے زائرین یہاں بلا رکاوٹ آ جا سکیں۔
اسرائیلی رہنما ڈیوڈ بن گوریان نے یہ تجویز جھٹ سے مان لی کیونکہ اس وقت تک اسرائیل کو پیر ٹکانے کی جگہ نہ صرف مل چکی تھی بلکہ اقوامِ متحدہ نے بھی ان کا قانونی حق تسلیم کر لیا تھا۔ تاہم فلسطینی قیادت (مفتی اعظم امین الحسینی وغیرہ) نے اس تجویز کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ جب ہم سارا قبضہ ہی غیر قانونی مانتے ہیں تو بیت المقدس کی حیثیت کا سوال کہاں سے آ گیا۔ مگر فلسطینی قیادت یہ سمجھنے سے قاصر رہی کہ بین الاقوامی سامراجی ہوا ان کے خلاف چل رہی ہے لہذا جو بچا لو وہی غنیمت ہے۔
منظم یہودیوں نے پانچ عرب ممالک کی کاغذی فوج کو آسانی سے شکست دے دی اور بیت المقدس کا مغربی حصہ بھی ان کے قبضے میں آگیا اور انھوں نے فوری طور پر اسے اسرائیل میں ضم کر کے اپنا دارلحکومت قرار دے دیا۔ جنگ بندی ہوئی تو مغربی کنارہ اور بیت المقدس کا مشرقی حصہ اردن کے قبضے میں تھا۔
چار لاکھ اسی ہزار فلسطینی عورتوں بچوں، بوڑھوں جوانوں کو بندوق کی نوک پر کھڑے کھڑے نسل در نسل گھروں سے نکال کے اندھے مستقبل کی جانب ہنکال دیا گیا۔ ایک ایک گاؤں کا عرب نام مٹا کر عبرانی نام رکھ دیا گیا۔ فلسطینی اس المئے کو نقبہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ نقبہ کا وہی مطلب ہے جو ہولوکاسٹ کا ہے (اب یہی بے خانماں بڑھ کے چالیس لاکھ سے زائد ہو چکے ہیں اور ملکوں ملکوں بکھرے پڑے ہیں)۔
کہا جا رہا ہے کہ امریکا پہلا ملک ہے جو بیت المقدس میں اپنا سفارتخانہ منتقل کرے گا۔ مگر یہ بات درست نہیں۔ حالانکہ بیت المقدس کے کسی بھی حصے کو اسرائیل میں یکطرفہ ضم کیا جانا ہمیشہ غیر قانونی رہا مگر سن 50ء کے عشرے میں سولہ ممالک کے سفارتخانے مغربی بیت المقدس میں قائم ہو چکے تھے۔ گیارہ لاطینی ممالک (بولیویا، چلی ، کولمبیا، کوسٹاریکا، ڈومینیکن ریپبلک، ایکویڈور، گوئٹے مالا، پاناما، یوروگوئے، وینزویلا، ہیٹی) تین افریقی ممالک (آئیوری کوسٹ، زائر، کینیا) اور ایک یورپی ملک ہالینڈ۔ تعجب ہے کہ اس وقت عرب دنیا نے اس بات کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا۔
1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد غیرجانبدار ممالک کی تنظیم کے فیصلے کے تحت تینوں افریقی ممالک نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کر لیے۔ باقی تیرہ سفارت خانے بدستور مغربی بیت المقدس میں کام کرتے رہے۔ جب 1980ء میں اسرائیلی پارلیمنٹ نے ’’یروشلم کا بنیادی قانون‘‘ منظور کیا جس کے تحت متحدہ یروشلم کو اسرائیل کا مستقل دارلحکومت قرار دے دیا گیا تب اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس قانون کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے قرارداد 478 منظور کی اور رکن ممالک سے مغربی بیت المقدس سے اپنے سفارت خانے ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ اس کے بعد تمام سفارتخانے تل ابیب منتقل ہوگئے (اقوامِ متحدہ کی اس قرار داد کو امریکا سمیت کسی نے ویٹو نہیں کیا)۔
مشرقی بیت المقدس پر جون 1966ء میں اسرائیل نے فوجی قبضہ کر لیا۔ اقوامِ متحدہ نے یہ قبضہ غیر قانونی اور مشرقی بیت المقدس کو ایک مقبوضہ علاقہ قرار دیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ قابض طاقت حتمی تصفیہ ہونے تک مقبوضہ علاقے کی جغرافیائی، شماریاتی، سماجی و مذہبی حیثیت میں کوئی من مانی تبدیلی نہیں کر سکتی۔ مگر پچھلے پچاس برس میں مشرقی بیت المقدس کے اندر اور اردگرد درجن بھر اسرائیلی آبادکار بستیاں نمودار ہو گئیں جہاں دو لاکھ یہودی بسائے گئے اور ان کی حفاظت کا ذمے پولیس اور فوج کو سونپا گیا۔ جب کہ بیت المقدس کی ساڑھے چار لاکھ فلسطینی آبادی کو شہریت سے محروم کر کے غیر ملکی تارکینِ وطن کا درجہ دے دیا گیا۔ اب ان کے پاس اردنی پاسپورٹ ہیں جن پر شہریت نمبر درج نہیں اور اسرائیل کے جاری کردہ رہائشی پرمٹ ہیں جنھیں کسی بھی وقت منسوخ کیا جا سکتا ہے۔
اردن میں کام کرنے کے لیے انھیں اردنی ورک پرمٹ کی ضرورت ہے اور اسرائیلی رہائشی پرمٹ برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک خاص مدت سے زیادہ بیت المقدس کی حدود سے باہر نہیں رہ سکتے۔ بصورتِ دیگر انھیں اپنی املاکی ملکیت، کرائے نامے یا تنخواہ کی سلپ کے ذریعے ثابت کرنا پڑتا ہے کہ وہ واقعی بیت المقدس کے حقیقی رہائشی ہیں لہذا ان کا پرمٹ بحال کیا جائے۔ اس کے باوجود گزشتہ پچاس برس میں تقریباً چودہ ہزار فلسطینی ایسے ہیں جن کا رہائشی پرمٹ مستقل منسوخ کیا جا چکا ہے۔ اب وہ نہ اردن کے شہری ہیں نہ بیت المقدس کے رہائشی۔ عملاً وہ مغربی کنارے کی فلسطینی اتھارٹی کی حکومت میں بھی پناہ گزین ہیں۔
اب جہاں بے چارگی کا یہ عالم ہو وہاں یہ توقع کرنا کہ عالمِ اسلام ان کے حق کے لیے ہر ممکن اقدام سے گریز نہیں کرے گا ایک مضحکہ خیز توقع ہے۔ ظاہر ہے عرب لیگ کو ٹرمپ کے اقدام کی مذمت کرنی تھی سو اس نے اپنا فرض پورا کر دیا۔ ظاہر ہے اسلامی کانفرنس کی تنظیم کو یہ مطالبہ کرنا تھا کہ بیت المقدس میں جو بھی ملک اپنا سفارت خانہ منتقل کرے اس سے تنظیم کے ستاون ممالک سفارتی تعلقات ختم کر لیں سو اس نے اپنی مردانگی کے ثبوت کے طور پر مطالبہ کر دیا۔
ظاہر ہے کہ تمام عرب اور دیگر مسلمان ممالک کو ایک مذمتی بیان اور ’’یہاں سے وہاں تک آگ لگ جائے گی‘‘ وغیرہ وغیرہ کہنا تھا سو کہہ دیا۔ دو یا تین جمعے تک مذہبی سیاسی جماعتیں کراچی، لاہور اور پشاور وغیرہ میں احتجاجی جلوس نکالیں گی۔ ہو سکتا ہے کچھ منچلے اپنی ہی املاک کو نقصان بھی پہنچا دیں۔ مگر فلسطینیوں نے اگر تیسرا انتفاضہ شروع کر دیا تو ٹانگیں صرف فلسطینوں کی ہی ٹوٹیں گی۔ ہم بس ایک کورس کی شکل میں ہائے وائے کرتے رہیں گے۔
( جب اگست 1979میں آسٹریلوی یہودی مائیکل روحان نے مسجد اقصی کے منبر کو آگ لگائی تو بہاول پور کے ایک مقامی اخبار میں سرخی لگی ’’سمہ سٹہ کے عوام اسرائیل کو نیست و نابود کر کے دم لیں گے۔مقامی علما کا عزم‘‘ ۔)
آج اصل مسئلہ فلسطین پر اسرائیلی قبضہ نہیں اصل مسئلہ اسرائیل سمیت پورے مشرقِ وسطی کی ’’اعتدال پسند حکومتوں‘‘ کو ’’انتہا پسند ایران‘‘ کی شکل میں درپیش ہے۔یہ خطرہ اتنا بڑا ہے کہ اس پر سو فلسطین اور ہزار بیت المقدس قربان۔۔
تحریر : وسعت اللہ خان*