ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران خلیج فارس میں کشیدگی کم کرنے کے لیے منصوبہ پیش کریں گے۔
غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق سرکاری ویب سائٹ پر اپنے جاری بیان میں ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ ’اس سال تہران خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک منصوبہ پیش کرے گا جس کے مطابق ایران خلیج فارس اور بحیرہ امان کی حفاظت کے لیے سیکیورٹی اقدامات کرسکتا ہے‘۔
خیال رہے کہ 14 سمتبر کو سعودی عرب کی تیل کمپنی آرامکو کی تنصیبات پر ہونے والے ڈرون حملے کے بعد خطے کی کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگیا تھا۔
سعودی عرب اور امریکا نے ان حملوں کا ذمہ دار ایران کو ٹھہرایا جبکہ تہران نے ان تمام الزامات کو مسترد کردیا تھا۔
ادھر سرکاری ویب سائٹ پر جاری بیان میں ایرانی صدر حسن روحانی کا کہنا تھا کہ غیر ملکی فورسز کی خطے میں موجودگی تیل اور اس کی ترسیل میں عدم تحفظ پیدا کرے گی۔
حسن روحانی نے کہا کہ ’ہم ان کی طرح نہیں ہیں جو دوسروں کی سرحدوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور نہ ہی ہم کسی کو اپنی سرحدوں کی خلاف ورزی کی اجازت دیں گے‘۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے پہلی ایران-عراق جنگ 1988-1980 کی یادگاری تقریب کے دوران خطاب کرتے ہوئے کیا۔
یاد رہے کہ آرامکو تیل تنصیبات حملے کی ذمہ داری یمن کے حوثی باغیوں نے قبول کی تھی تاہم سعودی حکام نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ یہ حملہ شمال کی جانب سے ہوا۔
دوسری جانب اس حملے کی وجہ سے ایران اور امریکا کے درمیان پہلے سے جاری کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے جس کے باعث امریکا نے 21 ستمبر کو ایران پر نئی سخت پابندیاں عائد کرنے کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کی درخواست پر خلیجی ممالک میں اپنی مزید فوج بھیجنے کا اعلان کیا تھا۔
ایران نے اس اعلان کا رد عمل دیتے ہوئے پاسداران انقلاب کے چیف کمانڈر میجر جنرل حسین سلامی نے کہا تھا کہ ایران اپنی سرزمین پر کسی کو بھی جنگ کی اجازت نہیں دے گا اور چھوٹے پیمانے پر حملہ کرنے والوں کو تباہ کردیں گے۔
ان تمام تر کشیدگی کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایرانی صدر حسن روحانی کے خطاب کو اہمیت دی جارہی ہے۔