ایران نے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے ایک جہاز نے سمندری حدود کی خلاف ورزی کی جس پر جہاز کو تحویل میں لے لیا گیا۔غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق ایران کی وزارت خارجہ نے مزید بتایا کہ یو اے ای کے ساحلی محافظوں نے اسی دن 2 ایرانی ماہی گیروں کو ہلاک کیا ہے۔
واضح رہے کہ یو اے ای اور اسرائیل کے مابین معاہدے کے بعد ایران اور ابوظہبی کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی ہے۔
سرکاری ٹی وی کا حوالے دے کر بتایا گیا کہ 17 اگست کو ایک اماراتی جہاز کو ایران کے سرحدی محافظوں نے قبضے میں لیا جو تہران کی بحری حدود کی خلاف ورزی کر رہا تھا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ اسی دن یو اے ای نے 2 ایرانی ماہی گیروں کو گولی مار کر ہلاک کیا اور ایک کشتی بھی اپنی تحویل میں لے لی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران نے اس واقعے پر تہران میں اماراتی ناظم الامور کو طلب کیا۔
دوسری جانب اماراتی وزارت خارجہ نے معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی ‘ڈبلیو اے ایم’ نے چند روز قبل کہا تھا کہ خلیجی ریاست کے ساحلی محافظوں نے سر بو نوئیر جزیرے کے شمال مغرب میں ریاست کے بحری راستوں کی خلاف ورزی کرنے والی 8 ماہی گیری کشتیوں کو روکنے کی کوشش کی تھی۔
ایران کے بیان میں کہا گیا کہ ’متحدہ عرب امارات کے حکام نے بدھ کے روز ایک مراسلے میں اس واقعے پر گہرے افسوس کا اظہار کیا اور ہونے والے تمام نقصانات کی تلافی کے لیے آمادگی ظاہر کی۔
خیال رہے کہ ایران اور ترکی نے متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے کے فیصلے پر سخت ناراضی کا اظہار کیا تھا۔
ایران کی وزارت خارجہ نے اس معاہدے کو ‘خنجر’ قرار دیا تھا جسے متحدہ عرب امارات نے فلسطینی عوام اور تمام مسلمانوں کی پیٹھ میں ناجائز طور پر گھونپا ہے، ترکی نے کہا کہ متحدہ عرب امارات کے ذریعے خطے کے عوام اس منافقانہ سلوک کو کبھی نہیں فراموش کریں گے اور کبھی معاف نہیں کریں گے۔
6 رکنی خلیجی تعاون کونسل کے سیکریٹری جنرل نے معاہدے پر روحانی اور دیگر ایرانی عہدیداروں کی جانب سے متحدہ عرب امارات کو دی جانے والی ‘دھمکیوں’ کی مذمت کی تھی۔
بعدازاں متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ انور قرقاش نے کہا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے متحدہ عرب امارات کا معاہدہ ایک ‘خود مختار فیصلہ’ تھا اور اس کا ایران سے کوئی لینا دینا نہیں۔
متحدہ عرب امارات نے کہا تھا کہ اس نے ابوظہبی میں ایران کے ناظم الامور کو طلب کیا ہے اور ایرانی صدر حسن روحانی کی تقریر کے جواب میں انہیں ‘سخت الفاظ میں میمو’ دیا ہے جہاں وزارت خارجہ نے روحانی کی تقریر کو ‘ناقابل قبول’ قرار دیا ہے۔