ایران کی وزرات خارجہ کے ترجمان نے غزہ جنگ کے بارے میں بائیڈن اور ہریس کے ایران کے خلاف حالیہ الزامات کے جواب میں ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا کہ میں دو ٹوک لفظوں میں کہتا ہوں کہ اب بس کریں!
مہر خبررساں ایجنسی کے رپورٹر کے مطابق، وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے آج اپنی پریس بریفنگ میں کہا کہ غزہ کی پٹی پر صیہونی حکومت کے وحشیانہ حملوں کے آغاز کو 24 دن گزر چکے ہیں۔ ایسے حملے جن میں صیہونیوں نے تمام ریڈ لائنز عبور کرتے ہوئے بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں 8000 سے زیادہ فلسطینی شہریوں کے وحشیانہ قتل عام پر تعزیت کا اظہار کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ 3 ہزار 342 بچے، 460 بزرگ اور 2 ہزار طلباء زخمی ہیں۔ فلسطین کی عظیم اور صابر قوم کی خدمت میں تعزیت عرض ہے۔
کنعانی نے مزید کہا کہ امریکی حکومت اور بعض یورپی حکومتوں کی لغت میں اخلاق اور انسانی اقدار کی موت پر ہم انسانیت اور دنیا کی آزاد حکومتوں سے تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا: 75 سال سے فلسطینی قوم کے مصائب کا سلسلہ جاری ہے۔ دنیا کو اسرائیلی حکومت کی نسل پرستانہ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا پہلے سے زیادہ احساس ہوچکا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے اس فورم میں اس بات پر زور دیا کہ صیہونی حکومت نے 20 جنگیں شروع کی ہیں اور جارحیت کی ہے۔ جناب امیر عبداللہیان نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل نے انسانیت کے خلاف جنگی جارحیت اور نسل کشی کے جرائم کا ارتکاب ایک بار نہیں بلکہ 4 بار کیا ہے لہذا اس معاملے کی قانونی کارروائی اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر جنرل مصر گئے اور رفح کراسنگ کی طرف اشارہ کیا کہ یہاں سے انسانی امداد کا گزرنا ممکن نہیں ہے۔
کنعانی نے یہ بھی کہا کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی تحقیقات ہونی چاہیے اور یہ ہماری درخواست ہے کہ بین الاقوامی تحقیقاتی کمیٹی بنائی جائے اور مجرموں کی اقوام متحدہ میں شناخت کرکے اور ان کے خلاف مقدمہ چلایا جائے۔
انہوں نے جدہ میں امیر عبداللہیان کی تجاویز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی تعاون تنظیم کے سیکرٹریٹ کے تحت بین الاقوامی ماہر وکلاء پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو دستاویزات اور شواہد اکٹھے کرکے متعلقہ بین الاقوامی اداروں اور عالمی فوجداری عدالت کو پیش کرے اور یورپ اور امریکہ میں بھی بین الاقوامی عدالتوں اور بین الاقوامی برادری سے قانونی پیروی کی درخواست کرے ۔
مصر سے غزہ میں انسانی امداد بھیجنے کے حوالے سے وزارت خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ ہم مصری حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ اگر غزہ کی پٹی میں انسانی امداد بھیجنا ممکن ہو جائے تو ہم جلد از جلد مصر کو امداد بھیجنے کے لیے تیار ہیں۔
غزہ کے حوالے سے دنیا بھر میں ایرانی سفارت خانوں کی کارکردگی کے بارے میں کنعانی نے مزید کہا کہ دنیا بھر میں ایرانی سفارت خانوں اور قونصل خانوں کی کارکردگی سفارتی نظام کے مشن اور کوششوں کے مطابق ہے۔ فلسطین کی حمایت اسلامی جمہوریہ ایران کا ایک اصولی موقف ہے جو صہیونیوں کے جرائم کے خاتمے، پابندیوں کو ہٹانے اور انسانی امداد بھیجنے کے تین مطالبات کے تحت پوری طاقت سے فلسطین کی حمایت کو آگے بڑھا رہا ہے۔
فلسطین کا مسئلہ سفارتی ترجیحات میں شامل ہے
کنعانی نے غزہ میں انسانی امداد بھیجنے کے بارے میں کہا: یہ مسئلہ وزیر خارجہ کی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے خصوصی نمائندے برائے مغربی ایشیائی امور کے ساتھ ملاقات اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ساتھ گفتگو میں اٹھایا گیا۔ بدقسمتی سے رفح سرحد پر اب تک حالات پر امن نہیں ہوسکے ہیں اور صیہونی حکومت نے اس سرحد کو کھولنے کی تمام درخواستوں کو مسترد کردیا ہے۔ اب تک رفح بارڈر کو عبور کرنے میں کامیاب ہونے والی امداد 100 امدادی ٹرکوں سے بھی کم ہے۔ یہ امداد عریش اور مصر کی بندرگاہوں میں جمع کرائی گئی ہے۔
ہم مصری حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں اور جتنی جلدی امداد وصول کرنا اور بھیجنا ممکن ہو ایران جلد از جلد مصر منتقل کرنے کے لیے تیار ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے سید حسن نصر اللہ کی تقریر کے امکان کے بارے میں کہا کہ حزب اللہ کے سکریٹری جنرل کے خطاب، ان کے موقف اور نظریات کا انتظار کر رہے ہیں۔
غزہ میں جنگ بندی کے لیے ایران کے منصوبے کے بارے میں کنعانی نے کہا کہ غاصب رجیم کی جارحیت کو روکنے کا معاملہ ایران کے ترجیحی مسائل میں سے ایک ہے، جس پر ہم نے شروع سے غور کیا ہے۔
ایران کی کوشش یہ رہی ہے کہ صیہونی حکومت کی جانب سے جارحیت کے خاتمے کے بین الاقوامی مطالبے کی نافرمانی کے پیش نظر عالمی برادری کے دباؤ کو مضبوط کیا جائے تاکہ حکومت اس مطالبے کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوجائے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ ایران اور ہمسایہ ممالک کی کوششوں کے فریم ورک میں اب عالمی برادری کا عمومی مطالبہ یہ ہے کہ غاصب رجیم کے حملوں کو جلد از جلد بند کیا جائے۔ یہ معاملہ اقوام متحدہ کی قرارداد میں اٹھایا گیا ہے کیونکہ یہ ایک اجتماعی مطالبہ ہے۔
ناصر کنعانی نے مختلف ممالک میں اسلامی مراکز کی سرگرمیوں کے بارے میں کہا: ہمارے پاس مختلف اسلامی مراکز ہیں جو سرکاری اور قانونی طور پر رجسٹرڈ ہیں اور ان ممالک کے قوانین کی بنیاد پر کام کر رہے ہیں۔ ثقافتی سرگرمیوں کے مراکز ہیں جہاں مختلف مذاہب کے پیروکار اجتماعات میں جمع ہوتے ہیں۔ ان مراکز کی سرگرمیاں ہمیشہ نتیجہ خیز رہی ہیں اور یہ ثقافتی تنوع کی نگرانی کرتی ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں ان مراکز میں سے کچھ کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا، ایران کا اصولی نظریہ یہ ہے کہ چونکہ یہ مراکز موجودہ قانونی ماحول کے دائرہ کار میں کام کرتے ہیں لہذا انہیں کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ ہم ان تفصیلات سے بے خبر نہیں ہیں، لیکن موجودہ قانونی طریقہ کار کے دائرے میں ان اداروں کے عہدے دار اس معاملے کی پیروی کر رہے ہیں۔