عراق میں کیڑے مار دوا کا گائے پر چھڑکاؤ کرتے ہوئے حکام صحت خون چوسنے والے کیڑوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جو کہ ملک میں بخار کے سب سے زیادہ پھیلنے کا سبب بن رہے ہیں جس سے خون بہنے کے باعث لوگوں کی اموات واقع ہورہی ہیں۔
شائع غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق مکمل حفاظتی کٹ میں ملبوس صحت کے کارکنوں کا یہ منظر ایسا ہے جو عراق کے دیہی علاقوں میں عام ہو گیا ہے، کیونکہ عراق میں کریمین کانگو ہیمرج بخار تیزی سے پھیل رہا ہے جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق رواں سال عراق میں انسانوں میں سی سی ایچ ایف کے 111 کیسز میں سے 19 افراد کی موت واقع ہوگئی ہے۔
عراق میں پھیلے اس وائرس کی کوئی ویکسین نہیں ہے اور یہ وائرس مزید تیزی سے پھیل سکتا ہے، اس وائرس سے انسان کے اندرونی اور بیرونی جسم کے حصوں اور خاص طور پر ناک سے شدید خون بہنے لگتا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق یہ زیادہ سے زیادہ پانچ میں سے دو کیسز میں موت کا سبب بنتا ہے۔
صوبہ ذی قار میں صحت کے ایک اہلکار حیدر ہانٹوچے نے کہا کہ ریکارڈ ہونے والے کیسز کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
جنوبی صوبہ ذی قار کاشتکاری کا ایک غریب خطہ ہے عراق کے تقریباً نصف کیسز کا سبب بن رہا ہے۔
صحت کے اہلکار نے کہا کہ گزشتہ برسوں میں اس وائرس کے کیسز انگلیوں پر گنے جاسکتے تھے، مگر اس صوبے میں خون چوسنے والے کیڑوں کے ذریعے منتقل ہونے والے اس وائرس سے جنگلی اور کھیتی باڑی والے جانور جیسے بھینس، گائے، بکرے اور بھیڑ متاثر ہورہے ہیں اور یہ سب جانور ذی قار میں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
الجباری گاؤں میں ایک ٹیم ایک گھر، جس میں ایک خاتون متاثرہ ہیں، کے ساتھ موجود اصطبل میں کیڑے مار دوا چھڑکی، صحت کے کارکنان خود کو مکمل حفاظتی کٹ میں ملبوس کرکے، ماسک اور چشمے پہن کر ایک گائے اور اس کے دو بچھڑوں پر کیڑے مار دوا چھڑک رہے تھے۔
صحت کے ایک اہلکار نے خون چوسنے والے کیڑوں کو گائے سے گرتے ہوئے دکھایا جو نیچے گر کر جمع ہو رہے تھے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق کسی متاثرہ کیڑے کے کاٹنے کے بعد جانور اس وائرس کا شکار ہوتے ہیں، یہ وائرس لوگوں میں یا تو خون چوسنے والے کیڑوں کے کاٹنے سے یا ذبح کے بعد متاثرہ جانوروں کے خون یا ٹشوز کے ذریعے منتقل ہوتا ہے۔
رواں برس وائرس کے کیسز میں اضافے نے حکام کو پریشان کردیا ہے کیونکہ 1979 میں عراق میں وائرس کے پہلی بار سامنے آنے کے بعد 43 سالوں میں یہ تعداد ریکارڈ شدہ کیسز سے بہت زیادہ ہے۔
صحت کے اہلکار حیدر ہانٹوچے نے کہا کہ ان کے صوبے میں 2021 میں صرف 16 کیسز ریکارڈ کیے گئے تھے جن کے نتیجے میں 7 اموات ہوئیں لیکن رواں سال ذی قار میں 43 کیسز ریکارڈ ہوئے ہیں جن میں 8 اموات واقع ہوچکی ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے اعداد و شمار کے مطابق عالمی وبا کورونا وائرس کے مقابلے میں یہ تعداد اب بھی بہت کم ہے جس سے عراق میں 25 ہزار سے زیادہ اموات اور 23 لاکھ کیسز درج ہوئے تھے مگر پھر بھی اس وائرس نے صحت کے حکام کو پریشان کردیا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ افریقہ، ایشیا، مشرق وسطیٰ اور بلقان میں اس وبائی مرض سے اموات کی شرح 10 سے 40 فیصد کے درمیان ہے، عراق میں ڈبلیو ایچ او کے نمائندے احمد زوتین نے کہا کہ ملک میں اس وائرس کے پھیلنے کے بارے میں کئی قیاس آرائیاں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے مفروضوں میں 2020 اور 2021 میں کورونا وائرس کے دوران مویشیوں پر کیڑے مار ادویات چھڑکنے کی مہم کی عدم موجودگی میں خون چوسنے والے کیڑوں کا پھیلنا بھی شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس وبا کا کچھ ذمہ دار عالمی درجہ حرارت کو قرار دیتے ہیں جس نے خون چوسنے والے کیڑوں کے تعداد کو بڑھا دیا ہے۔