عراقی پارلیمنٹ نے وزیر اعظم عادل عبدالمہدی کا استعفیٰ منظور کرلیا جس کا اعلان انہوں نے دو روز قبل کیا تھا۔
غیر ملکی خبر ایجنسی ‘رائٹرز’ کے مطابق عراقی پارلیمنٹ کے ہنگامی اجلاس میں وزیراعظم عادل عبدالمہدی کے استعفے کو منظور کرنے کے حق میں ووٹ دیا گیا۔
پارلیمنٹ کے میڈیا آفس سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ‘عراقی پارلیمنٹ صدر مملکت کو نئے وزیراعظم کی نامزدگی کے لیے کہے گی’۔
اراکین پارلیمنٹ کا کہنا تھا کہ عادل عبدالمہدی کی حکومت اور وہ خود نئے حکومت کے انتخاب تک قائم مقام وزیراعظم اور حکومت کے طور پر ذمہ داریاں نبھاتے رہیں گے۔
رپورٹ کے مطابق صدر برہام صالح متوقع طور پر عراق کے آئین کے تحت پارلیمنٹ موجود اکثریتی گروپ کو نیا وزیر اعظم نامزد کرنے اور حکومت کی تشکیل کی ہدایت کریں گے جس کے بعد مہینوں سے جاری کشیدگی میں کمی کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔
خیال رہے کہ عراقی وزیر اعظم نے 29 نومبر کو عراق کے بااثر مذہبی رہنما آیت اللہ علی سیستانی کے مطالبے پر اپنے عہدے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا تھا جس کو مظاہرین نے پہلی کامیابی قرار دیتے ہوئے پوری حکومت اور کرپٹ سیاست دانوں کے استعفے تک احتجاج جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔
عراق میں اقوامِ متحدہ کے اعلیٰ عہدیدار جینائین ہینیس پلاشرٹ اور ملک کے بااثر مذہبی رہنما آیت اللہ علی سیستانی دونوں نے اس سے قبل بھی حکام پر زور دیا تھا کہ سیکڑوں افراد کی ہلاکت کا سبب بننے والے حکومت مخالف احتجاج کے بعد اصلاحات کے لیے ’سنجیدہ‘ ہوجائیں۔
عادل عبدالمہدی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ‘آیت اللہ کے مطالبے اور دیگر سہولت کاروں کے جواب میں اپنا استعفیٰ پارلیمنٹ میں پش کروں گا اور ان سے مطالبہ کروں گا کہ وہ حکومت کی قیادت سے میرا استعفیٰ منظور کریں’۔
پارلیمنٹ کی جانب سے وزیراعظم کے استعفے کی منظوری کے باوجود پولیس اور میڈیکل ذرائع کا کہنا تھا کہ بغداد سمیت عراق کے مختلف علاقوں میں کشیدگی جاری ہے اور دارالحکومت میں سیکیورٹی فورسز نے ایک شہری کو ہلاک اور دیگر 9 افراد کو زخمی کردیا۔
عراق میں بے روزگاری، مہنگائی اور کرپشن کے خلاف یکم اکتوبر کو احتجاج شروع ہوا تھا جو تشدد کی شکل اختیار کرگیا اور ابتدائی دنوں میں 200 سے زائد افراد مارے گئے تھے۔
رپورٹس کے مطابق یکم اکتوبر سے اب تک ہلاک ہونے والے مظاہرین کی تعداد 420 سے تجاوز کرگئی اور سیکڑوں افراد زخمی ہوچکے ہیں۔