سائنسدانوں نے چمگادڑ کی ایک قسم گوانو چمگاڈر کی کھاد سے کورونا وائرس پھیلنے کا شبہ ظاہر کیا ہے۔تھائی لینڈ کے ایک گاؤں میں لوگ گوانو چمگاڈر کو جمع کرتے ہیں اور اس چمگاڈر کو یہاں کے کسان غذائیت سے بھرپور کھاد میں استعمال کرنے کے لیے طلب کرتے ہیں۔
سائنسدانوں نے یہ شبہ ظاہر کیا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ جان لیوا کورونا وائرس کی وجہ یہ کھاد ہو۔گزشتہ سال کے آخر میں چین سے پھیلنے والا خطرناک کورونا وائرس کہاں سے نکلا ہے اس معاملے پر تاحال بحث جاری ہے اور متعدد سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ وائرس چمگاڈروں سے انسانوں میں پھیلا ہے۔
لیکن تھائی لینڈ کے مغربی صوبے رتچھابری میں ایک گاؤں کے رہائشی جو گوانو چمگاڈر کو اندھیری غار سے جمع کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے ان کے خیال میں ایسا نہیں ہے کہ یہ وائرس ان چمگاڈروں سے نکلا ہے۔
یہاں کے گاؤں کے لوگ رات کے اندھیرے میں چمگاڈروں کی تلاش کے لیے نکلتے ہیں، ان میں سے کچھ لوگ کئی دہائیوں سے چمگاڈر جمع کر رہے ہیں اور ایک بالٹی کے عوض انہیں ایک ڈالر ملتا ہے۔
چمگاڈر جمع کرنے والے گاؤں کے رہائشیوں کا کہنا ہے انہیں اتنے عرصے میں کبھی بھی صحت سے متعلق مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا جب کہ وہ ان چمگاڈروں کو جمع کرتے وقت منہ پر ایک کپڑا باندھتے ہیں۔
تھائی لینڈ کے صوبائی محکمہ صحت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ چمگاڈروں کو جمع کرنے کا سلسلہ کئی سالوں سے چلا آرہا ہے اور گوانو چمگاڈر مختلف بیماریوں کا باعث بن سکتی ہے۔
چمگاڈر جمع کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ چمگاڈر متعدد کیمیکلز سے مالامال ہوتی ہے جن میں نائٹروجن، فاسفیٹ اور پوٹاشیئم شامل ہے اور کسان انہیں بہترین فصل کے لیے کھاد میں استعمال کرتے ہیں۔
عالمی وباء سے 154 ممالک متاثر ہوچکے ہیں جس کے بعد کل کیسز کی تعداد ایک لاکھ 56 ہزار سے ہوگئی ہے جب کہ دنیا بھر میں اموات کی تعداد تقریباً 6 ہزار ہے۔
چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن کے مطابق وائرس پر اب قابو پایا جا رہا ہے اور مریضوں کی تعداد میں واضح کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
چین کے بعد دنیا بھر میں اٹلی میں وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے جہاں وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 24 ہزار سے زائد ہے جب کہ ہلاکتیں 1800 سے تجاوز کرچکی ہیں۔