عام طور پر ایسی تصویریں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں کہ کیمرہ آپ پر مرکوز ہو اور آپ رو رہے ہوں۔
روہت شرما کی ایسی ہی ایک تصویر اس وقت سامنے آئی جب ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں انگلینڈ نے انڈیا کو 10 وکٹوں سے شکست دی تھی۔
روہت انڈین ٹیم کے وہ کپتان ہیں جنھوں نے اپنی بلے بازی سے وائٹ بال کرکٹ میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں اور وہ ون ڈے میں سب سے زیادہ ڈبل سنچریاں سکور کر چکے ہیں۔
دنیا ان کو ‘ہٹ مین’ کے نام سے جانتی ہے اور وہ آئی پی ایل کے سب سے کامیاب کپتان ہیں تاہم ان کے اس تصویر نے ناصرف ان کے ساتھی کھلاڑیوں بلکہ انڈین کرکٹ کے کروڑوں مداحوں کو بھی غمزدہ کر دیا تھا۔
تاہم، روہت شرما کو ٹی ٹوئنٹی میں انڈین ٹیم کے کپتان بنے ہوئے صرف ایک سال ہوا ہے۔
لیکن ورلڈ کپ میں ایسی شکست کے بعد آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ کیا انڈیا کا ٹی ٹوئنٹی کا مستقبل 35 سالہ روہت شرما کی کپتانی پر منحصر ہے؟
روہت کی کپتانی میں ٹیم کی کارکردگی
2021 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں انڈیا پہلے ہی راؤنڈ میں باہر ہو گیا تھا جس کے بعد کپتانی تبدیل کی گئی تھی اور ویراٹ کوہلی کی جگہ روہت شرما ٹیم کے نئے کپتان بن گئے تھے۔
نئے کپتان روہت کی قیادت میں انڈین ٹیم نے دو طرفہ سیریز میں بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
اس دوران انڈیا نے نیوزی لینڈ، ویسٹ انڈیز اور سری لنکا کو شکست دی۔ انڈین ٹیم نے غیر ملکی دوروں میں آئرلینڈ، انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز سے بھی سیریز جیتی۔
پھر، اس بار کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے ٹھیک پہلے، انڈین ٹیم نے آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کو بھی ان کے گھر پر 2-1 سے شکست دی۔
اگر آپ ان نتائج کو دیکھیں گے تو ایسا لگے گا کہ انڈین ٹیم مسلسل جیت رہی ہے، اس لیے سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔
لیکن سب کچھ ٹھیک نہیں ہے کیونکہ انڈیا آئی سی سی کے بڑے ٹورنامنٹ جیتنے میں ناکام رہا ہے۔
غلطی کہاں ہوئی؟
روہت شرما کی کپتانی میں پہلا بڑا چیلنج یو اے ای اور عمان میں کھیلے گئے ایشیا کپ میں آیا۔
گروپ کے پہلے میچ میں انڈیا نے پاکستان کو 5 وکٹوں سے شکست دی تھی تاہم بعد میں پاکستان اور سری لنکا دونوں سے ہار گئی اور فائنل کھیلنے کا موقع گنوا دیا۔
روہت شرما کی ٹیم کے سامنے دوسرا سب سے بڑا چیلنج ٹی 20 ورلڈ کپ 2022 آیا، جس میں ٹیم نے شائقین کو ایک بار پھر مایوس کیا۔
انڈیا نے پاکستان اور بنگلہ دیش سے آخری گیندوں پر بمشکل میچ جیتا۔ بعد میں جب دو بڑی ٹیمیں جنوبی افریقہ اور انگلینڈ سامنے آئیں تو نتیجہ انڈیا کے خلاف تھا۔
اس ورلڈ کپ میں انڈیا کی شکست کی سب سے بڑی وجہ ٹیم کا بیٹنگ پاور پلے کا استعمال نہ کرنا تھا۔
کیا آپ یقین کر سکتے ہیں کہ روہت شرما، کے ایل راہول اور ویراٹ کوہلی کے ٹاپ آرڈر پر مشتمل انڈین ٹیم کا پاور پلے اوسط صرف متحدہ عرب امارات سے زیادہ ہے؟
انگلینڈ کے سابق کپتان ناصر حسین نے کہا کہ انڈیا کی شکست کی وجہ ان کی بیٹنگ تھی، وہ خوف سے کھیل رہے تھے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ انڈین ٹیم 10 سال پرانی طرز پر ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کھیل رہی ہے جس کا وقت گزر چکا ہے۔
انڈین ٹیم کی حکمت عملی یہ تھی کہ شروع میں وکٹیں بچائیں لیکن یہ حکمت عملی فلاپ ہوگئی اور کوچ راہول ڈریوڈ کے ساتھ کپتان روہت شرما کو بھی اس کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔
اس سے پہلے ہونے والی تبدیلیاں
ورلڈ کپ کسی بھی ٹیم کے لیے بڑا ہدف ہوتا ہے۔ ٹیمیں ورلڈ کپ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا چاہتی ہیں اور اس کے لیے چار سال پہلے سے تیاری شروع کر دی جاتی ہیں۔
اگر ٹیم ورلڈ کپ میں توقعات پر پورا نہ اترے تو ٹیم میں بڑی تبدیلیاں ہو سکتی ہیں۔
کوچ راہول ڈریوڈ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں۔ 1979 کے ورلڈ کپ کے بعد 2007 کا ون ڈے ورلڈ کپ انڈین ٹیم کے لیے بدترین تھا۔
سنہ 1979 میں انڈیا ایک بھی میچ نہیں جیتا تھا جب کہ 2007 میں انڈیا بنگلہ دیش اور سری لنکا سے ہارا تھا اور صرف برمودا کے خلاف ایک میچ جیتا تھا۔
انڈین ٹیم ٹورنامنٹ کے پہلے راؤنڈ میں ہی باہر ہو گئی تھی۔
راہول ڈریوڈ اس ون ڈے ٹیم کے کپتان تھے اور کوچ گریگ چیپل تھے۔ شکست کے فوراً بعد کوچنگ سٹاف میں تبدیلی کی گئی اور چند ماہ بعد راہول ڈریوڈ کو بھی ون ڈے ٹیم سے باہر کر دیا گیا۔
ٹیم میں نئے کپتان مہندر سنگھ دھونی آئے اور انھوں نے ٹیم کو ایک نئی سمت دی جس کے نتیجے میں 2011 میں چار سال بعد ورلڈ کپ جیتا گیا۔
کئی سابق کرکٹرز نے بھی کہا ہے کہ ٹیم میں تبدیلی کا وقت آ گیا ہے اور جب پہلے ایک ہارنے والے کپتان کو ہٹایا گیا تو اب کیوں نہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ روہت شرما اگلے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ تک 37 سال کے ہو جائیں گے، تو کیا وہ اب بھی کپتان رہیں گے یا ٹیم میں ان کی جگہ ہو گی؟
ان کا ماننا ہے کہ اگر تبدیلی لانی ہے تو جتنی جلدی کی جائے اتنا ہی بہتر ہے۔
انڈیا کی ‘ڈیڈیز آرمی’ ٹیم
ویسے اگر غور سے دیکھا جائے تو انڈیا کی ٹی 20 ٹیم میں بڑی تبدیلیوں کا وقت پچھلے سال ہی آ گیا تھا۔
اگر آپ 2021 کے ورلڈ کپ میں پاکستان کے خلاف انڈین ٹیم کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اس ٹیم کے تمام کھلاڑی پاکستان کے خلاف 2022 کے میچ میں حصہ لے رہے تھے۔
کیا وہی ٹیم جس نے 2021 میں بہت بری کارکردگی کا مظاہرہ کیا وہ اگلے سال ورلڈ چیمپئن بن سکتی ہے خاص طور پر جب ٹیم کے زیادہ تر کھلاڑی بوڑھے ہو چکے ہوں اور ٹیم کو ‘ڈیڈیز آرمی’ کہا جا رہا ہو؟
یہ بھی پڑھیے
ٹیم میں روہت شرما، ویرات کوہلی، کے ایل راہول، دنیش کارتک، روی ایشون، محمد شامی، بھونیشور کمار سبھی 30 اور زیادہ تر 34-35 کے آس پاس ہیں۔
ٹیم کی بڑھتی ہوئی اوسط عمر بھی فوری تبدیلی کی التجا کر رہی ہے۔
انڈیا کی 10 وکٹوں سے شکست کے بعد ہر طرف سے ٹیم کی کارکردگی کی مذمت کی گئی لیکن مائیکل وان جتنی تنقید شاید کسی اور نے نہیں کی۔
وان نے کہا کہ انڈین ٹیم توقعات کے مقابلے میں عالمی کرکٹ کی سب سے کم کامیاب ٹیموں میں سے ایک ہے۔
انھوں نے کہا کہ وہ حیران ہیں کہ اتنے ٹیلنٹ سے بھرپور ٹیم کیسی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کھیلتی ہے؟
انگلینڈ کے سابق کپتان مائیکل وان نے کہا کہ آپ مخالف باؤلرز کو پہلے 5 اوورز میں سیٹل ہونے کا موقع کیسے دیتے ہیں؟
دراصل وان انڈین ٹیم کی حکمت عملی کی مذمت کر رہے تھے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ پاور پلے میں رنز نہ بنانا ایک کمزوری ہے جس کا تعلق ٹیلنٹ سے نہیں ذہنیت سے ہے۔
پاور پلے میں کمزور بلے بازی کے علاوہ لیگ سپنر چہل کو نہ کھلانا بھی ٹیم کو مہنگا پڑا۔ اسی ورلڈ کپ میں انگلینڈ کے عادل رشید اور پاکستان کے شاداب خان نے شاندار لیگ سپن بولنگ کی۔
انڈین ٹیم کو سیمی فائنل میں بھی لیگ سپنر کی کمی محسوس ہوئی جب روی شاستری نے مایوس کن لہجے میں کمنٹری کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا کے پاس بہترین لیگ سپنر ہے لیکن میدان میں نہیں، ڈگ آؤٹ میں۔
کپتان کی تبدیلی یا صرف کھیلنے کا انداز؟
کپتانی اور تبدیلی کی اس بحث میں عرفان پٹھان نے بھی ٹویٹ کرکے اپنی رائے دی ہے۔
انھوں نے کہا ہے کہ کپتان کو تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں، تین اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کے مطابق اوپنرز کو تیز کھیلنا چاہیے، ٹیم میں ایک لیگ سپنر ہونا چاہیے، اور بہت تیز گیند باز کی ضرورت ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عرفان کی تجاویز کارآمد ثابت ہو سکتی ہیں لیکن یہ ٹیم 2024 تک اسی کپتان کے ساتھ چلے گی یا نہیں، یہ فیصلہ ہونا ہے۔
کچھ ماہرین یہ بھی مشورہ دے رہے ہیں کہ انڈیا کو مختلف ٹیموں کے لیے مختلف کپتان رکھنے چاہییں۔ مطلب ٹیسٹ، ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے کے الگ الگ کپتان۔
ان کا ماننا ہے کہ ہاردک پانڈیا کی قیادت میں نیوزی لینڈ کے دورے پر جانے والی انڈین ٹیم کے ساتھ ہی تبدیلی شروع ہوئی ہے۔
نئے کپتان کا اعلان محض رسمی طور پر باقی رہ گیا ہے جس میں سوال یہ نہیں کہ ایسا ہوگا یا نہیں لیکن یہ کب ہو گا۔