مبئی :21مئی(ندیم صدیقی) مشہور شیعہ عالمِ دین اوراُردو کے ممتاز ادیب و صحافی(85سالہ) مولانا حسن عباس فطرتؔ آج پونے میں رِحلت کر گئے۔مولانا حسن عباس فطرت اُترپردیش کے مشہور ضلع بستی کے قصبہ ہلّور(سادات) میں30 جون 1935کو پیدا ہوئے تھے۔ اُن کے اجداد میں سے شاہ عبدالرسول تین سو برس قبل مشہد (ایران) سے ہجرت کر کےیہاں آئے تھے۔
مولاناحسن عباس فطرت وثیقہ عربک کالج(فیض آباد) کے طالب علم رہے اورجامعہ ناظمیہ (لکھنؤ) کے ’ممتاز الافاضل‘ بھی تھے۔ انہوں نے بمبئی یونیورسٹی سے بی اے کیا اور پھر اِسی جامعہ میں انہوں نے عربی کادرس بھی دِیا۔
ہر چند کہ اُن کا اصل میدان مذہب ہی تھا مگر وہ عام علما کی طرح صرف منبر نشیں یا علم کےکسی ایک شعبے میں محدود نہیں رہے۔ وہ اچھا خاصاادبی ذوق اور سیاسی شعور رکھتے تھے۔ انہوں نے کوئی تیس برس قبل روزنامہ انقلاب (ممبئی) ،ہفت روزہ بلٹز(ممبئی) اور دیگر جرائد و اخبارات میں تواتر سے سیاسی و مذہبی اور ادَبی مضامین لکھے۔
روزنامہ انقلاب میں خاصی مدت تک اُن کا ادبی کالم ’’کتبصرہ‘‘اور پھر’’ رفتارِ زمانہ‘‘ شائع ہوتا رہا، وہ ایک سلجھے مزاج کے حامل اور اتحاد المسلمین کے نہ صرف قائل بلکہ اسکے مبلغ بھی تھے۔ پاسدارانِ انقلاب اسلامی ایران کی دَعوت پر وہ ایران گئے اور وہاں حوزۂ علمیہ قم کے ادارۂ تحقیق و ترجمہ کے شعبہ ٔ اُردو کے صدر بنائے گئے۔ وہ مشہورانجمن’وظیفۂ سادات ومومنین‘ سے بھی وابستہ رہے بلکہ اس کے مقامی ناظم بھی مقرر ہوئے۔ مڈ غاسکر(افریقہ) میں اُن کی کوششوں سے ایک مدرسے کا احیا بھی ہوا۔ وہ کم و بیش دو دَہوں سے پونے میں مقیم تھے جہاں اُنہوںنے طویل علالت کے بعد آج آخری سانس لی۔ پونے سے اُنہوں نے ایک ہفت روزہ’’ صداقت‘‘ بھی جاری کیا جو، اب قیصر رضا حسینی کی ادارت میں شائع ہوتا ہے۔مولاناحسن عباس فطرت نے ممبئی کی خوجہ اثنا عشری مسجد میں’’ خطیب و امامِ جمعہ‘‘ کے فرائض بھی انجام دِیے اور بیس برس پونے میں امامِ جمعہ رہے۔ انہوں نےتصنیف و تالیف کا کام اخیر تک جاری رکھا، گزشتہ نومبرمیں جب احقراُن کی عیادت کی خاطر پونے گیا تھا تو اُنہوں نے اپنی تازہ کتاب ’’ ارمغانِ مقالات‘‘ (384 صفحات)سے نوازا تھا جس میں اُن کے مختلف موضوعات کے حامل موقر مضامین ہیں۔
مرحوم کی دیگرکتابوں کے نام اس طرح ہیں : بیاں اپنا، افریقہ سرخ و سیاہ، چشمۂ آفتاب، جینے کا سلیقہ، امام خمینی بے مثال رہبر، اس کے علاوہ انہوں نےکئی کتابوں کے تراجم بھی کیے۔ انھیں زینبیہ ایوارڈ(ممبئی)، شہید مطہری ایوارڈ(دہلی) اور محسنِ ادب(پونے) جیسے اعزازات سے بھی سرفراز کیا گیا۔
ان کے پسماندگان میں ایک بیٹا (جو بسلسلۂ ملازمت ملک سے باہر ہے) اور ایک بیٹی ہے، اُن کی ایک بیٹی سالِ گزشتہ انتقال کر گئی تھی۔