یروشلم 4 مارچ (یو این آئی)اسرائیل میں جو بیس فیصد عرب مسلمان ہیں ان کی نئی نسل اب اس دیرینہ سوچ سے باہر نکلنا چاہتی ہے کہ عرب اکثریت والے خطے میں وہ یہودیوں کے سامنے اقلیت میں کیسے ہو سکتے ہیں!
اس خیال کا اظہار یروشلم کی مسلم آبادی والے علاقے میں فلسطینی تنازعے کے تعلق سے رجوع کرنے پر ایک عرب اسرائیلی زیدون نے کیا اور کہا کہ سارا جھگڑا اس بات کا ہے کہ واقعات کو کس طرح بیان کیا جاتا ہے۔
وضاحت طلب کرنے پر اس اسرائیلی عرب نے کہا کہ 1947 میں جب برطانیہ نے ہندستان کو تقسیم کرکے پاکستان کو وجود بخشا تو اختلاف کے باوجود اس کے وجود کو تسلیم کیا گیا۔ یہاں بھی 1948 میں وہی ہوا لیکن عربوں نے عدم اتفاق کو مذاکرات کا حصہ بنانے کے بجائے جنگ کا راستہ اختیار کیا ۔نتیجے میں انہیں اور بھی زیاں ہوا۔
میری اس مداخلت سے کہ آپ کا یہ بیان بہر حال اسرائیل کے خلاف ذہن کو نہیں بدل سکتا ، انہوں نے برجستہ کہا کہ تنازعے سے متعلق فلسطینی یا عام عرب سوچ سے اسرائیل بھی کہا ں اتفاق کرتا ہے۔ اس لئے سوال مائنڈ سیٹ بدلنے کا نہیں ، درپیش حقیقت کا مان کر آگے بڑھنے کا ہے۔
اسی کے ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل میں زائد از نصف دہائی کے بعد بھی پرانی پیڑھیوں کے عرب مسلمانوں کو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اسرائیلی پارلیمنٹ میں ان کی حسب تناسب نمائندگی ہے جبکہ جمہوریت کے فقدان کی وجہ سے کسی عرب ملک میں غیر مسلمین کو یہ سہولت حاصل نہیں۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا نئی نسل بہ انداز دگر سوچنے لگی ہے! انہوں نے کہا کہ کوئی بہت بڑا انقلاب تو نہیں آیا لیکن نئی نسل اپنے بزرگوں سے کم از کم اپنے مستقبل کے تئیں سوال ضرور کرنے لگی ہے۔
اس موقع پر ایک نوجوان عرب نے جو ہماری باتیں سن رہا تھا، اس تاثر کے ساتھ گویا ہونے کی درخواست کی کہ مسائل حل کرنے کے جذبے سے مذاکرات پر یقین تک رسائی کے لئے جس شعوری بیداری کی ضرورت ہے وہ فکری تنگ نظری کے ماحول میں پرورش پانے والوں کی سوچ کا حصہ بن ہی نہیں سکتی۔ اس کا اشارہ بظاہر فلسطینی مقتدرہ کے تحت رہنے والوں کی طرف تھا۔
میں نے تجسس کے ساتھ اس سے پوچھا کہ تم اسرائیلی عرب ہو، تم کیسا محسوس کرتے ہو اور کیا چاہتے ہو؟ اس نوجوان نے کہا کہ فلسطینی مقتدرہ اپنی سوچ کے مطابق جن تبدیلیوں کے امکانات کی ذہنی آبیاری کرتی ہے وہ اُن حقائق سے بری طرح متصادم ہیں جنہیں قبول کر کے ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے اور پھر اس میں حسب خواہ ایسی تبدیلی لائی جا سکتی ہے جس کی تفہیم مشکل نہ ہو۔ میں نے اپنا سوال پھر دہرایا کہ تم کیا محسوس کرتے ہو۔ اس نے کہاکہ ’’ مجھے بس اپنی ضرورتوں کا پاس ہے اور مجھے یہاں اس حوالے سے کسی محرومی کا سامنا نہیں۔‘‘
میں نے اس کے جواب میں سے سوال نکالتے ہوئے کہا کہ قبل ازیں ایک یہودی اسٹوڈنٹ سے میں نے اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے اُس سے کسی ممکنہ حل کی طرف اشارہ کرنے کو کہا تو اس نے بس اتنا کہنے پر اکتفا کیا تھاکہ’’ کیا کسی ایسے دو حلقوں میں کوئی اتفاق ممکن ہے جن میں سے ایک ایکزسٹینس (بقا)پر اور دوسرا فریق ثانی کے اس دنیا سے ایگزٹ (موت) پریقین رکھتا ہو۔‘‘
میں نے جیسے ہی اسرائیلی اسٹوڈنٹ کی بات مکمل کی، عرب نوجوان مجھ سے ہی پوچھ بیٹھا کہ کیا آپ اب بھی کسی فوری انقلاب کی کوئی امید رکھتے ہیں!
میں نے جان بوجھ کر کسی ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا تاکہ وہ کچھ اور کھل کر اظہار خیال کر سکے۔ اس نوجوان نے کہا کہ بظاہر ہم دونوں ماضی گزیدہ ہیں لیکن ہولوکاسٹ کی کہانی کو نسل در نسل تازہ رکھ کر بھی وہ لامحدود ترقی پر ہیں اور فلسطینی ستر برسوں سے ماضی گرفتہ ہی چلے آرہے ہیں۔
یہ پوچھے جانے پر کہ اوسلو معاہدے پر عمل میں خلل کیوں پڑا ؟اس نے کہا کہ معاہدے تو آپ کے یہاں بھی ہوئے ہیں، کیا ان پر پورا پورا عمل ہوتا ہے!اختلاف کے ماحول میں بھی برطانوی ہندستان کی تقسیم سے دونوں ملکوں نے اتفاق کیا تھا۔ یہاں فلسطین کی تقسیم عربوں نے نہیں مانی ۔
اس سوال پر کہ اسرائیل کے قیام کے بعد کہا جاتا ہے کہ فلسطینیوں پر زمین تنگ کی گئی اور وہ ہجرت پر مجبور ہوئے۔ بزرگ عرب سعد نے فوری مداخلت سے کام لیتے ہوئے کہا کہ ہندستان اور پاکستان دونوں جگہ مہاجروں کو بسایا گیا لیکن فلسطینیوں کو کسی نے قبول نہیں کیا۔
اس سوال پر کہ اسرائیلی ہٹ دھرمی کا عالم اسلام میں شور سرے سے بے جواز تو نہیں ہوسکتا، بزرگ بظاہر بالکل نہیں چونکےاور اگلے ہی لمحے یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ مذاکرات کو نکات سے مشروط رکھا جا سکتا ضد سے نہیں اور آپ اگر مشرق وسطیٰ کےرخ پر اخبار نویسی کرتے ہیں تو آپ سے کچھ پوشیدہ نہیں ہوگا۔