اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے سیاسی حریف اور حزب اختلاف کے رہنما یائر لاپڈ نے ملک کے صدر کو باضابطہ طور پر آگاہ کردیا ہے کہ وہ نئی حکومت بنانے کے لیے سیاسی حلیفوں کے ساتھ معاہدوں پر پہنچ چکے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بدھ کی درمیانی شب کی حتمی تاریخ سے تقریباً 35 منٹ قبل سیکولر سینٹرسٹ یائر لاپڈ نے اسرائیلی صدر ریون ریولن کو ایک ای میل میں بتایا کہ ’مجھے یہ بتانے میں خوشی محسوس ہورہی ہے کہ میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگیا ہوں‘۔
بعد ازاں اسرائیلی صدر کے دفتر کے مطابق ریون ریولن نے یائر لاپڈ کو فون پر مبارکباد دی۔
یائر لاپڈ ایک متبادل گورننگ اتحاد قائم کریں جس سے ‘بی بی’ کے نام سے مشہور دائیں بازو کے رہنما کی حکومت کا خاتمہ ہوگا جس نے گزشتہ 12 سالوں سے اسرائیل پر حکومت کی ہے۔
یائر لاپڈ کے اہم ساتھی قوم پرست نفتالی بینیٹ بطور وزیراعظم پہلے اپنی مدت پوری کریں گے اور اس کے بعد یائر لاپڈ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالیں گے۔
سابق ٹی وی میزبان اور وزیر خزانہ 57 سالہ یائر لاپڈ دو سال بعد اپنا عہدہ سنبھالیں گے۔
اگر نئی حکومت کی حلف برداری ہوتی ہے تو اسے سفارتی، سلامتی اور معاشی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اتحادیوں کے مذاکرات میں شامل ایک ذرائع نے بتایا کہ مجوزہ نئی حکومت ہاٹ بٹن کے نظریاتی امور سے پرہیز کرتے ہوئے اتفاق رائے برقرار رکھنے کی کوشش کرے گی جیسے کہ مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقے کو فلسطینیوں کے لیے ریاست کے ساتھ منسلک کرنا ہے یا ان کا احترام کرنا ہے۔
موجودہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے تاحال یائر لاپڈ کے اعلان پر ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
خیال رہے کہ 120 رکنی نسیٹ میں سے نیتن یاہو 30 نشستیں رکھتے ہیں۔
جو یائر لاپڈ کے مقابلے میں دوگنی ہیں اور وہ کم از کم تین دیگر مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کے ساتھ اتحاد کررہے ہیں۔
اس سے قبل نفتالی بینیٹ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ‘اتحادیوں کی مذاکراتی ٹیم نے پوری رات بیٹھ کر اتحادی حکومت بنانے کی سمت پیشرفت کی ہے’۔
120 نشستوں والی پارلیمنٹ میں 61 نشستوں کی اکثریت حاصل کرنے کے لیے ان کے غیر متوقع اتحاد میں انہیں بائیں بازو اور دائیں بازو کی جماعتوں کو بھی شامل کرنا پڑے گا اور امکان ہے کہ انہیں عرب اسرائیلی سیاستدانوں کی حمایت کی ضرورت ہوگی۔
اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے میں یہودی آبادکاری جیسے فلیش پوائنٹ پر گہرے نظریاتی اختلافات کے باوجود 71 سالہ بینجمن نیتن یاہو کو عہدے سے ہٹانے کے لیے گروپ بندی کو متحد ہونا پڑے گا۔