امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ اسرائیل اور سعودی عرب معمول کے باہمی معاہدے سے بہت دور ہیں جس میں دفاعی معاہدہ اور امریکا سے سویلین جوہری پروگرام شامل ہوگا۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق امریکی صدر نے یہ بات اتوار کو نشر ہونے والے سی این این کو دئے گئے انٹرویو میں کہی۔امریکی حکام دونوں ممالک کے درمیان معمول کے تعلقات بحال کرنے کے لیے کٹھن معاہدے تک پہنچنے کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔
جو بائیڈن نے اینکر فرید زکریا کے ساتھ پروگرام جی پی ایس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم وہاں سے بہت دور ہیں، ہمیں کئی معاملات پر بات کرنی ہے۔
اسرائیل کے وزیر توانائی نے گزشتہ ماہ اس خیال کی مخالفت کا اظہار کیا تھا کہ سعودی عرب امریکی ثالثی سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے قیام کے تحت سویلین جوہری پروگرام حاصل کرے۔
جو بائیڈن نے گزشتہ موسم گرما میں سلطنت کے دورے کے موقع پر سعودی عرب کی جانب سے کیے گئے اس فیصلے کی طرف بھی اشارہ کیا جس کے تحت اس نے تمام ہوائی جہازوں کے لیے اپنی فضائی حدود کھول دیں اور اسرائیل آنے، جانے والی زیادہ پروازوں کی راہ ہموار کی۔
امریکی صدر نے یمن میں مستقل جنگ بندی کی کوششوں کا بھی ذکر کیا، یمن تنازع میں دسیوں ہزار افراد ہلاک ہو چکے اور اس تنازع کو سعودی عرب اور ایران کے درمیان بڑی پراکسی جنگ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم خطے میں بہتری لا رہے ہیں اور یہ طرز عمل پر منحصر ہے اور ہم سے کہا گیا کہ ہم انہیں اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کہیں۔
جو بائیڈن اتوار کے روز تین ملکوں کے دورے پر روانہ ہوئے جس کے دوران سب سے اہم موقع لیتھوانیا میں نیٹو سربراہی اجلاس ہوگا جس کا مقصد روس کے خلاف لڑائی میں یوکرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا ہے جب کہ تاحال کیف نیٹو اتحاد کا رکن نہیں ہے۔
جو بائیڈن کا پہلا پڑاؤ لندن میں ہوگا جہاں وہ آج بروز پیر 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ میں برطانوی وزیراعظم رشی سوناک سے ملاقات کرنے کے بعد کنگ چارلس کے ساتھ ملاقات کے لیے ونڈسر کیسل جائیں گے۔
سی این این کو دیے گئے انٹرویو میں اپنے اس دورے سے متعلق جو بائیڈن نے نیٹو میں شامل ہونے کے لیے یوکرین کی کوششوں پر فی الوقت احتیاط کی تاکید کرتے ہوئے کہا کہ نیٹو کے باہمی دفاعی معاہدے کی وجہ سے یوکرین کی شمولیت کی صورت میں اتحاد براہ راست روس کے ساتھ جنگ میں شامل ہو سکتا ہے۔