اقتدار پر باغیوں کے قبضہ اور صدر بشار الاسد کے فرار ہونے کے ساتھ ہی اسرائیل نے شام پر حملے شروع کر دئے ہیں۔ اطلاع کے مطابق اسرائیل نے ایک بڑے فضائی حملے میں شامی فوج کے تین اہم ایئربیس کو نشانہ بنایا۔ اس بمباری میں درجنوں ہیلی کاپٹر اور جیٹ طیارے کو نقصان پہنچا ہے۔
رائٹرس نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ شمال-مشرقی شام میں قمشلی ہوائی اڈہ، حمص کے دیہی علاقوں میں شنشر ہوائی اڈہ اور راجدھانی دمشق کے جنوب-مغرب میں اقربا ایئربیس کو نشانہ بنایا گیا۔ اس کے علاوہ راجدھانی دمشق کے باہری علاقے میں واقع ایک تحقیقی مرکز اور سیدہ زینب علاقے میں الیکٹرانک وار سینٹر پر بھی حملہ کیا گیا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے شام کے فوجی ٹھکانوں پر 100 سے زیادہ فضائی حملے کیے ہیں۔ سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے سربراہ رامی عبدالرحمٰن نے اس کی تصدیق کی ہے۔ انہوں کہا کہ اسرائیلی حملوں میں اسلحہ ڈپو کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
اس حملے میں لتاکیہ کے سمندری پارٹی میں سابق شامی بحریہ کی جہازیں بھی تباہ ہو گئی ہیں۔
اسرائیلی افسروں نے پیر کو کہا تھا کہ اسرائیل شام کے جدید اسلحوں کے ذخائر پر حملے تیز کرے گا اور زمین پر محدود فوجی موجودگی کو بنائے رکھے گا تاکہ بشار الاسد کے تختہ پلٹ کے بعد پیدا ہونے والے کسی بھی خطرے کو روکا جا سکے۔
مہینوں تک کئی محاذوں پر جنگ لڑنے کے بعد اب اسرائیل کو فکر ہے کہ شام میں پیدا ہوئے حالات سے اس کے ملک پر اثر پڑ سکتا ہے۔ اسرائیلی فوج نے دونوں ملکوں کے درمیان 1974 کی جنگ بندی کے حصے کے طور پر بنائے گئے ایک بفر زون پر قبضہ کرنا شروع کر دیا ہے۔
حالانکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہ قدم عارضی ہے اور اس کا مقصد اپنی سرحد کو محفوظ کرنا ہے۔ واضح ہو کہ اسرائیل نے 1967 کی جنگ میں شام کے گولان کی پہاڑی کے کچھ حصوں پر قبضہ کر لیا تھا۔