اسرائیل کے طیاروں نے متحدہ عرب امارات اور بحرین سے تعلقات قائم کرنے کے لیے معاہدے پر دستخط کے ایک روز بعد ہی غزہ پر بمباری کردی۔خیبرایجنسی اے ایف کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نے الزم عائد کیا کہ غزہ سے راکٹ حملے ہوئے کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ 1994 کے بعد اسرائیل کے عرب ممالک سے ہونے والے معاہدے روک دیے جائیں۔
دوسری جانب غزہ کی حکمران جماعت حماس نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر بمباری جاری رہی تو کشیدگی بڑھے گی۔
خیال رہے اسرائیل نے گزشتہ روز وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی موجودگی میں متحدہ عرب امارات اور بحرین کے وزرائے خارجہ کے ساتھ معاہدے پر دستخط کردیا تھا۔
معاہدے کے بعد فلسطین بھر میں احتجاج کیا گیا تھا اور ریلیاں نکالی گئی تھیں۔اسرائیل کی فوج نے اپنے بیان میں کہا کہ غزہ کی پٹی سے تقریبآ 15 راکٹ فائر کیے گئے، جن میں سے 9 راکٹوں کو ناکارہ کردیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ جنوبی ساحلی شہر اشدود میں راکٹوں سے دو افراد زخمی ہوئے۔غزہ کی سرحد سے منسلک قصبے سدیروت کے رہائشی کا کہنا تھا کہ راکٹ سے ہم حیران ہوگئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ معاہدے کی وجہ سے ہوا ہو کیونکہ وہ ہم سے امن معاہدہ نہیں چاہتے ہوں اور اس کو نقصان پہنچانا چاہتے ہوں۔
اسرائیلی فوج نے کہا کہ لڑاکا طیاروں نے حماس کے عسکری مقامات کو نشانہ بنایا۔حماس کی جانب سے راکٹ فائر کرنے کے الزامات سے متعلق کوئی ردعمل نہیں آیا اور نہ ہی زمہ داری قبول کی گئی۔
اسرائیل نے حماس کو ذمہ دار ٹھہرایا اور ایسے اقدامات پر سخت کارروائی کی دھمکی دی۔
معاہدوں پر بے یقینی
اسرائیل کی جانب سے غزہ پر راکٹ فائر کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے بمباری کو فیصلہ ایک ایسے وقت میں کہ گئی ہے جب ایک روز قبل ہی متحدہ عرب امارات اور بحرین سے تعلقات قائم کرنے کے معاہدے پر باقاعدہ دستخط ہوچکے ہیں۔
اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے حماس پر الزام عائد کیا اور کہا کہ وہ امن معاہدے کو ناکام کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم ان سب کو نشانہ بنائیں گے جو ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے اور جو امن چاہتے ہیں ان سے ہاتھ ملائیں گے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں معاہدے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ابھی آغاز اور مزید ممالک سے اسرائیل کے تعلقات قائم ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل اب سعودی عرب اور خطے کے طاقتوں سمیت مزید 9 ممالک سے اسی طرح کا معاہدہ کرے گا۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے سے امن کا مقصد اس وقت تک حاصل نہیں کیا جاسکتا جب تک ہمارے عوام کے ریاستی حقوق تسلیم نہیں کیے جاتے۔
ان کا کہنا تھا کہ امن، سلامتی اور استحکام جب تک خطے میں اسرائیل کا قبضہ ہے اس وقت تک بحال نہیں ہوسکتا۔
محمود عباس نے خبردار کیا کہ فلسطین کے عوام اس کی قیادت کو کسی بھی فیصلے سے دور رکھا گیا تو اس کے خطرناک نتائج ہوں گے۔