عرب اور اسرائیلی شہری وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی مکانوں کو مسمار کرنے کی پالیسی کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔
اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب میں عربوں اور یہود نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر یک جہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتہا پسند صہیونی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی مکانوں کو مسمار کرنے کی پالیسی کے خلاف احتجاج کیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عربوں کے مکانوں کو ڈھانے کا سلسلہ بند کردے ۔
فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے ایک صحافی کے مطابق تل ابیب میں مظاہرے میں قریبا ایک ہزار افراد نے حصہ لیا ہے۔انھوں نے عبرانی اور عربی زبان میں لکھے بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر یہ لکھا تھا:” یہود اور عرب ایک ہیں”۔
بائیں بازو کی حزب اختلاف کی جماعت میرتز اور عرب جماعتوں کے اتحاد سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمان اس حکومت مخالف مارچ کی قیادت کررہے تھے۔اسرائیلی عربوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نیتن یاہو کی دائیں بازو کی حکومت ان کی بلا لائسنس تعمیرات کے خلاف کریک ڈاؤن محض یہودی آباد کاروں کو ممنون کرنے کے لیے کررہی ہے۔ یہ یہودی آباد کار مغربی کنارے میں واقع اپنی ایک بستی امونا کو مسمار کرنے کے حکم کے خلاف غصے میں ہیں اور وہ حکومت کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔
واضح رہے کہ اسرائیلی حکومت اپنے زیر قبضہ علاقوں میں صدیوں سے آباد فلسطینی عربوں کو نئے مکانوں کی تعمیر کے لیے ایک پالیسی کے تحت اجازت نامے جاری نہیں کرتی ہے لیکن اگر وہ اپنے طور پر اپنی ہی اراضی پر مکان تعمیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو انھیں مسمار کردیا جاتا ہے۔
گذشتہ ماہ اسرائیل کے جنوب میں واقع عربوں کے ایک گاؤں ام الحیران میں اسرائیلی پولیس کی کارروائی کے بعد سے کشیدگی پائی جارہی ہے۔اسرائیلی پولیس وہاں عربوں کے مکانوں کو ڈھانے کی کارروائی کی نگرانی کے لیے گئی تھی۔اس دوران میں ایک پولیس اہلکار پر اسرار حالات میں ہلاک ہوگیا تھا اور پولیس نے جواب میں ایک عرب شہری کو گولی مار دی تھی۔
پولیس نے اس واقعے کی یہ کہانی بیان کی تھی کہ پچاس سالہ دیہاتی یعقوب ابو القیان نے پولیس اہلکاروں پر اپنی گاڑی چڑھا دی تھی جس سے ایک اہلکار مارا گیا تھا۔اس کے ردعمل میں پولیس نے اس کو گالی مار کر موت کی نیند سلا دیا تھا۔اسرائیلی پولیس نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ یہ عرب اسلامی تحریک میں متحرک تھا اور وہ مبینہ طور پر داعش سے اثرانداز ہوا تھا لیکن گاؤں کے مکینوں نے اس خود ساختہ دعوے کو مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ مقتول ایک معزز استاد تھا۔
میرتز کی رکن پارلیمان مشعل روزن نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”ہماری حکومت کے ارکان کو متبادل حقائق وضع کرنے پر فخر ہے۔وہ ایسا جہالت کی بنا پر نہیں کرتے ہیں بلکہ وہ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے خوف ،نسل پرستی اور منافرت پر مبنی متبادل بیانیہ وضع کررہے ہیں”۔
اسرائیلی عرب ان فلسطینیوں کی اولاد ہیں جو 1948ء میں ریاست اسرائیل کی فلسطینی سرزمین پر تخلیق کے وقت اپنے آبائی علاقوں ہی میں آباد رہے تھے اور انھوں نے مہاجرت کی زندگی اختیار کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اب ان کی آبادی اسرائیل کی کل آبادی کا 17.5 فی صد ہوچکی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی ریاست ان کے ساتھ منظم انداز میں امتیازی سلوک کررہی ہے اور اس نے نئے مکانوں کی تعمیر کے لیے اجازت ناموں کا حصول عملاً ناممکن بنا دیا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کے مطابق نئے مکان تعمیر نہیں کر سکتے ہیں اور اگر وہ نام نہاد اسرائیلی حکام سے اجازت لیے بغیر مکانوں کو تعمیر کرتے ہیں تو انھیں ہمیشہ ان کی مسماری کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔