اسرائیلی فوج کے سابق جنرل آئزک برک نے اعتراف کیا کہ اگر اسرائیلی فوج غزہ میں رہنے کا فیصلہ کرتی ہے تو اسے روزانہ راکٹ حملوں اور سنائپر شوٹنگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، عبرانی روزنامہ “معاریو” نے صیہونی فوج کے سابق جنرل اسحاق بریک کے حوالے سے لکھا ہے کہ “اگر اسرائیلی فوج نے غزہ پر قبضہ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تو سے روزانہ کی بنیاد پر راکٹوں، چھاپہ مار حملوں اور سنائپر شوٹنگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
انہوب نے مزید کہا کہ غزہ میں اسرائیلی فوج کی مسلسل موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ حماس پر فتح کے بغیر بہت سے فوجی ہلاک ہو جائیں گے۔
ادھر صیہونی اپوزیشن لیڈر یائر گولن نے جنگ کی موجودہ روش پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ نیتن یاہو حکومت دوسرے ممالک کی نگاہ میں نفرت انگیز رژیم بن چکی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک حکومت عام شہریوں کے خلاف جنگ نہیں کرتی ، نہ ہی معصوم بچوں کو تفریح کے لیے مارتی ہے، اور نہ ہی کسی علاقے کے مکینوں کو جبری نقل مکانی پر مجبور کرتی ہے، نیتن یاہو کابینہ ایک فاشسٹ انتظامیہ ہے۔
گولن نے کہا کہ حکومت کی کابینہ میں ایسے لوگوں کی اکثریت ہے جو انتقامی خیالات رکھتے ہیں جب کہ ان میں اخلاقیات کی رمق تک باقی نہیں ہے اور وہ اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ ہیں۔
مذکورہ صہیونی عہدیدار کے بیانات پر تل ابیب حکام نے بوکھلاہٹ کا مظاہرہ کیا۔
اسرائیلی وزیر خارجہ گعون ساعر نے فوج کے خلاف ان کے بیانات کو ناقابل معافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان بیانات سے یہود دشمنی کے رجحان کو ہوا ملتی ہے!