صہیونی فوج نے انسانی ہمدردی کے مشن پر روانہ کشتی میڈلین کو بین الاقوامی سمندری حدود میں گھیر کر اس پر حملہ کیا۔ اس غیرانسانی اقدام پراقوام متحدہ اور یورپی ممالک کا موقف ایک بار پھر شرمناک رہا۔
مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقومی ڈیسک: بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے قابض صہیونی حکومت نے ایک مرتبہ پھر اپنی جارحانہ فطرت کا مظاہرہ کیا ہے۔ انسان دوست کارکنوں اور معروف شخصیات پر مشتمل امدادی کشتی “میڈلین” جو غزہ کا محاصرہ توڑنے اور مظلوم فلسطینیوں کی مدد کے لیے روانہ ہوئی تھی، اسے بین الاقوامی پانیوں میں نشانہ بناکر نہ صرف روک دیا گیا بلکہ اس میں سوار افراد کو گرفتار بھی کرلیا گیا۔ اس واقعے نے نہ صرف انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا بلکہ یورپی ممالک اور اقوامِ متحدہ کی معنی خیز خاموشی نے ان کی منافقانہ پالیسیوں کو بھی بے نقاب کردیا۔
یہ کشتی جس کا مقصد غزہ کی ناکہ بندی کو توڑتے ہوئے وہاں کے مظلوم شہریوں تک امداد پہنچانا تھا، اسرائیلی کمانڈوز کے حملے کا نشانہ بنی۔ اس جارحیت پر مختلف بین الاقوامی حلقوں کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ فرانس کے بائیں بازو کے رہنما اور سیاسی جماعت کے سربراہ نے اس اقدام کو بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ میڈلین پر حملے اور کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف احتجاج، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی خارجہ پالیسی میں سرفہرست ہونا چاہیے۔
ترکی کے سابق وزیرِ اعظم اور سیاسی پارٹی کے رہنما احمد داوود اوغلو نے بھی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے میڈلین پر حملہ کر کے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ وہ بین الاقوامی قوانین کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔
برطانیہ کے سابق اپوزیشن لیڈر اور رکنِ پارلیمنٹ جیرمی کوربن نے بھی برطانوی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ لندن کو اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرنا فوری بند کرنا چاہیے، کیونکہ یہ پالیسی اسرائیلی جارحیت کی پشت پناہی کے مترادف ہے۔
میڈلین میں سوار معروف بین الاقوامی شخصیات
ذرائع کے مطابق امدادی کشتی میڈلین میں 12 نمایاں بین الاقوامی شخصیات سوار تھیں، جن کا تعلق مختلف ممالک سے ہے اور یہ افراد غزہ کی ناکہ بندی کے خلاف آواز بلند کرنے اور مظلوم فلسطینی عوام سے یکجہتی کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ ان افراد کے تعارف درج ذیل ہیں:
گریٹا تونبرگ سویڈن سے تعلق رکھنے والی عالمی شہرت یافتہ ماحولیاتی، موسمیاتی اور سماجی انصاف کی کارکن۔ انہوں نے کشتی میں شرکت کرکے فلسطینیوں کی حمایت میں ماحولیات سے آگے بڑھ کر ایک مضبوط سیاسی موقف اختیار کیا۔
ریما حسن یورپی پارلیمنٹ کی رکن اور بائیں بازو کی فرانسیسی جماعت سے وابستہ فلسطینی نژاد اس خاتون سیاستدان نے عملی طور پر غزہ کے حق میں انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کیا۔
عمر فیاض معروف بین الاقوامی نیوز چینل الجزیرہ کے صحافی، جو اس مشن کی مکمل میڈیا کوریج کے لیے کشتی میں موجود تھے۔
یانیس محمدی فرانسیسی ویب سائٹ “پلاست” کے صحافی، جنہوں نے اس سفر کی رپورٹنگ اور دنیا کو باخبر رکھنے کا فریضہ سنبھالا۔
پاسکال موریراس فرانس سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے سرگرم کارکن، جو ماضی میں بھی “فریڈم فلوٹیلا” کی امدادی کشتیوں کا حصہ رہ چکے ہیں۔
تھیاگو آفیلا برازیل کے معروف سماجی و سیاسی کارکن اور صحافی، جو گزشتہ دو دہائیوں سے فلسطینی کے حامی ہیں۔
بابتیس آندرے فرانسیسی ڈاکٹر، جو کشتی میں سوار مسافروں اور ممکنہ اسرائیلی حملے کی صورت میں زخمیوں کی طبی نگہداشت کے لیے ہمراہ تھے۔
یاسمین آجار جرمنی کی کرد نژاد سماجی کارکن اور “فریڈم فوٹیلا” اتحاد کی سرگرم رکن۔
ریوا فیارد فرانس سے تعلق رکھنے والی ماحولیاتی کارکن، جو ماحولیات کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے لیے بھی پرعزم ہیں۔
سوایپ اوردو ترکی سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکن۔
سرجیو توریبیو ہسپانوی کارکن اور کشتی کے عملے کے رکن، جو سمندری ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم Sea Shepherd سے وابستہ ہیں۔
مارکو فان رینیس ہالینڈ کے ایک نوجوان میرین انجینیئرنگ کے طالب علم اور کشتی کے عملے کا حصہ، جو اپنی فنی مہارت سے اس مشن میں معاونت کر رہے ہیں۔
بین الاقوامی پانیوں میں صہیونی غنڈہ گردی
اس حقیقت کے باوجود کہ مذکورہ ممالک کے شہریوں کو اسرائیلی حکومت نے بین الاقوامی پانیوں سے اغوا کرکے زیرِ حراست رکھا اور ان سے تفتیش کی جا رہی ہے، کسی بھی یورپی ملک کی جانب سے اس غیر قانونی اقدام کے خلاف کوئی سنجیدہ اور واضح مؤقف سامنے نہیں آیا۔ حالانکہ یہ بات کسی پر پوشیدہ نہیں کہ یہی یورپی ممالک، بالخصوص فرانس نہ صرف غزہ پر صہیونی حکومت کے وحشیانہ حملوں کے حامی ہیں بلکہ اسے مسلسل اسلحہ فراہم کر کے اس جارحیت کو تقویت بھی دے رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے بھی ہمیشہ کی طرح صرف زبانی مذمت پر اکتفا کیا اور اسرائیل کے اس کھلے قانون شکنی پر کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔
اس تمام صورتحال کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ کشتی میڈلین کی گرفتاری اور اغوا بین الاقوامی پانیوں میں عمل میں آئی، جہاں کسی ریاست کو طاقت کے استعمال کا کوئی قانونی اختیار حاصل نہیں ہوتا۔ صہیونی کمانڈوز کی جانب سے ایک غیر عسکری، انسانی ہمدردی کے مقصد سے رواں دواں کشتی پر مسلح حملہ اور اس میں سوار افراد کی گرفتاری کو بحری قزاقی یا بین الاقوامی سطح پر سمندری رہزنی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ یہ اقدام نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ عالمی برادری کی خاموشی بھی عالمی انصاف کے دہرے معیار کو بے نقاب کررہی ہے۔