اسرائیل اور اسلامی جہاد گروپ نے قاہرہ کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی پر اتفاق کرلیا، جس سے غزہ کی سرحد پر ایک سال سے زائد عرصے میں سب سے سنگین جھڑپ ختم ہونے کی امید پیدا ہوگئی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق اسلامی جہاد اور اسرائیلی حکومت نے الگ الگ بیانات میں کہا کہ جنگ بندی رات ساڑھے 8 بجے نافذ ہوئی۔
گزشتہ چند روز کے دوران اسرائیلی افواج نے غزہ کی پٹی پر گولہ باری کی جس کے جواب میں اس کے شہروں کو نشانہ بنانے کے لیے طویل فاصلے کے میزائل مارے گئے۔
حالیہ جھڑپوں کے دوران غزہ کی پٹی میں حکومت کرنے والا گروپ حماس جو ایرانی حمایت یافتہ اسلامی جہاد سے زیادہ طاقتور قوت ہے، اب تک الگ رہا۔
غزہ کے حکام نے بتایا کہ اسرائیلی حملوں میں اب تک 43 فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں سے تقریباً نصف عام شہری اور بچے بھی شامل ہیں۔
دوسری جانب اسلامی جہاد کے راکٹوں سے جنوبی اسرائیل کے بیشتر علاقوں کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے اور تل ابیب اور اشکیلون سمیت شہروں کے رہائشیوں کو پناہ گاہوں میں بھیج دیا گیا تھا۔
اسرائیل نے اسلامی جہاد کی جانب سے مقبوضہ مغربی کنارے میں گروپ کے ایک رہنما بسام السعدی کی گرفتاری کا بدلہ لینے کے لیے متوقع حملے پر پیشگی حملے شروع کیے تھے۔
اس کے جواب میں اسلامی جہاد نے کہا کہ اس نے اسرائیل پر سیکڑوں راکٹ فائر کیے ہیں، گروپ نے کہا کہ جنگ بندی میں بسام السعدی کی رہائی شامل ہوگی۔
بعد ازاں اتوار کو اسلامی جہاد نے اسرائیل کے حملے میں اپنے جنوبی غزہ کے کمانڈر کی راتوں رات ہلاکت کے بدلے میں یروشلم کی جانب میزائل حملوں کی حد کو بڑھا دیا، یہ دوسرے سینئر رکن تھے جو اس نے لڑائی میں کھو دیے۔
اسرائیل نے کہا کہ اس کے آئرن ڈوم انٹرسیپٹر، جس کی کامیابی کی شرح فوج 97 فیصد بتاتی ہے، نے شہر کے بالکل مغرب میں راکٹوں کو مار گرایا۔
غزہ میں اتوار کو جاں بحق ہونے والے 17 فلسطینیوں میں 9 بچے بھی شامل ہیں، جس سے جمعہ کو لڑائی شروع ہونے کے بعد سے مرنے والوں کی تعداد 41 ہو گئی۔
غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ ہفتے کے روز سے غزہ میں 300 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں، اتوار کی شام اسرائیل کے تجارتی دارالحکومت تل ابیب کے مرکز میں دو راکٹ داغے گئے۔
اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ ‘غزہ میں اسلامی جہاد کے عسکری ونگ کی تمام سینئر قیادت کو ختم کردیا گیا ہے’۔