سعودی عدالت نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے جرم میں 5 افراد کو سزائے موت اور دیگر تین افراد کو مجموعی طور پر 24 سال قید کی سزا سنا دی۔امریکا میں مقیم سعودی صحافی جمال خاشقجی کو گزشتہ سال ترک شہر استنبول میں واقع سعودی سفارتخانے میں قتل کردیا گیا تھا۔
اس وقت سامنے آنے والی ویڈیو فوٹیج کے مطابق 2 اکتوبر 2018 کو جمال خاشقجی استنبول میں واقع سعودی سفارتخانے کے اندر داخل ہوئے تھے لیکن اس کے بعد واپس نہیں آئے۔
جمال خاشقجی سعودی حکومت کے بڑے ناقد تصور کیے جاتے تھے اور ان کے یکدم غائب ہو جانے کے بعد سعودی حکومت پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ اس نے امریکی جریدے کے لیے کام کرنے والے صحافی کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔
جمال خاشقجی کے قتل پر عالمی سطح پر غم و غصہ سامنے آیا تھا جس کی وجہ سے سعودی ولی عہد کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا تھا جس کے بعد سے انہوں نے امریکا اور یورپی ممالک کا کوئی دورہ نہیں کیا۔
امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق سعودی عرب کی جانب سے پانچ افراد کو اس مقدمے میں سزائے موت کا حکم دیا گیا ہے جبکہ دیگر تین افراد کو مجموعی طور پر 24سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
پیر کو ریاض میں پریس کانفرنس کے دوران پبلک پراسیکیوٹر نے سزاؤں کا اعلان کیا۔
سعودی پبلک پراسیکیوٹر کی جانب سے عرب نیوز سے شیئر کی گئے بیان میں کہا گیا کہ عدالت نے 11افراد پر فرد جرم عائد کی تھی جس میں سے تین کو بری کردیا گیا۔
عدالت نے متاثرہ شخص کے قتل میں ملوث ہونے کے جرم میں پانچ افراد کو سزائے موت کا حکم دیا جبکہ قتل کو چھپانے اور قانون کی خلاف ورزی پر تین افراد کو مجموعی طور پر 24سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ مقدمے کی تحقیقات میں 31افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں سے 21کو گرفتار کر لیا گیا جبکہ 10افراد کو صرف سوال جواب کے لیے طلب کیا گیا تھا کیونکہ عدالت کے پاس انہیں حراست میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔
اس جرم پر پردہ ڈالنے اور قانون کی خلاف ورزی پر تین افراد کو مجموعی طور پر 24سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
اس مقدمے میں سعودی شاہی عدالت کے سابق مشیر اور کنسلٹنٹ سعود القحطانی پر بھی الزام تھا کہ انہوں نے قتل کی مکمل منصوبہ بندی کی جس کی وجہ سے انہیں تفتیش کا سامنا کرنا پڑا لیکن الزام ثابت نہ ہونے پر انہیں بری کردیا گیا۔
عدالت نے ناکافی شواہد کی بنا پر سابق ڈپٹی انٹیلی جنس چیف احمد ال اسیری کو بھی بری کردیا۔
یاد رہے کہ اس قتل کے تقریباً ایک سال بعد سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے قتل کی ذمے داری قبول کر لی تھی۔ولی عہد محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ وہ صحافی جمال خاشقجی قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں کیونکہ یہ واقعہ ان کے دور اقتدار میں رونما ہوا۔
اس مقدمے میں اس وقت ڈرامائی موڑ سامنے آیا تھا جب سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق ریکارڈنگ کی نئی تفصیلات سامنے آئی تھیں جن میں انہیں یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ میرا منہ بند نہ کریں، مجھے دمہ ہے۔