ممبئی، 17 فروری (یو این آئی )ہندی فلمی دنیا میں جاں نثار اختر کو ایک ایسے نغمہ نگار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جنہوں نے اپنے نغموں کو عام زندگی کے ساتھ منسلک کرکے ایک نئے دور کا آغاز کیا جاں نثار اختر 1914 میں مدھیہ پردیش کے گوالیار شہر میں پیدا ہوئے ان کے والد مضطر خیرآبادی بھی ایک مشہور شاعر تھےان کا بچپن سے شاعری سے گہرا تعلق تھا۔
انہوں نے زندگی کے اتار چڑھاؤ کو بہت قریب سے دیکھا تھا اسی لئے ان کی شاعری میں زندگی کے فسانے کو بڑی شدت سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔
ان کی غزل کا ایک شعر آج بھی لوگوں کے ذہن پر چھایا ہوا ہے۔
انقلابوں کی گھڑی ہے
ہر نہیں ہاں سے بڑی ہے
ان کی غزلیں بھی جو مزاج کے اعتبار سے جدید تر بھی ہیں اور پرانی شعری روایت کا تسلسل بھی۔
انکی شاعری نعروں کی شاعری نہیں۔
مجموعی طور پر یہ شاعری کلاسیکیت ، رومانیت ، حقیقیت نگاری کا امتزاج اور عاشقانہ و نظریاتی شاعری کا نمونہ ہے۔
سال 1945 ء اختر کے لئے خوشیوں کی سوغات لے کر آیا اس سال ان کا بیٹا پیدا ہوا تھا جس کا نام انہوں نے ’جادو‘ رکھا جو بعد میں ’’جاوید اختر‘‘ کے نام سے فلم انڈسٹری میں مشہور ہوئے۔
سال 1947 میں تقسیم کے بعد ملک بھر میں ہو رہے فرقہ وارانہ فسادات سے تنگ آکر اختر گوالیار چھوڑ کر بھوپال آ گئے۔
بھوپال میں وہ مشہور حمیدیہ کالج میں اردو کے پروفیسر مقرر ہوگئے لیکن کچھ دنوں کے بعد ان کا دل وہاں نہیں لگا اور وہ اپنے خوابوں کو نئی شکل دینے کے لئے 1949 میں ممبئی آ گئے۔
ممبئی پہنچنے پر انہیں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
کچھ دنوں تک وہ مشہور ناول نگار عصمت چغتائی کے یہاں بھی رہے۔
انہوں نے سب سے پہلے فلم ’شکایت‘ کے لئے نغمہ لکھا لیکن فلم کی
ناکامی کے بعدانہیں اپنا فلمی کیریئر ڈوبتا نظر آیا لیکن انہوں نے اپنی ہمت نہیں ہاری اور اپنی جدوجہد جاری رکھی۔
آہستہ آہستہ ممبئی میں ان کی شناخت بنتی گئی لیکن سال 1952 میں انہیں گہرا صدمہ پہنچا جب ان بیگم کا انتقال ہو گیا۔
تقریباً چار سال تک ممبئی میں جدوجہد کرنے کے بعد 1953 میں فلم ’نغمہ‘ میں گلوکارہ شمشاد بیگم کی آواز میں ’’بڑی مشکل سے دل کی بیقراری میں قرار آیا‘‘ کی کامیابی سے
وہ فلم انڈسٹری میں خود کو ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے۔