جاپان: سزائے موت کا قیدی 46 سال بعد بے قصور ثابت ہونے پر رہا
1969 میں سزائے موت سنائے جانے کے بعد ایواؤ ہاکاماڈا دنیا میں سب سے طویل عرصے تک سزائے موت کا انتظار کرنے والے قیدی بن گئے۔
جاپان کی ایک عدالت نے چار افراد کے قتل کے جرم میں سزائے موت کا انتظار کرنے والے 88 سالہ شخص کو 46 سال جیل میں گزارنے کے بعد بری کر دیا۔
اس وقت کے ایک پیشہ ور باکسر ایواؤ ہاکاماڈا پر 1966 میں دو بچوں سمیت چار افراد کو قتل کرنے اور ان کے گھر کو جلانے کا الزام تھا۔
1969 میں سزائے موت سنائے جانے کے بعد وہ دنیا میں سب سے طویل عرصے تک سزائے موت کا انتظار کرنے والے قیدی بن گئے۔
ان کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد متعدد اپیلوں اور طویل مقدمات کی وجہ سے بار بار تاخیر کا شکار ہوا، جس کے نتیجے میں جمعرات کو انہیں بری کر دیا گیا۔
شیزوکا ڈسٹرکٹ کورٹ کی طرف سے ایواؤ ہاکاماڈا کی بریت سے وہ جاپان جنگ کے بعد موت کی سزا سے بچنے والے پانچویں شخص بن گئے، جن کو دوبارہ مقدمہ چلانے پر بے قصور پایا گیا۔
مقامی نشریاتی ادارے ’این ایچ کے‘ کی رپورٹ کے مطابق سماعت کرنے والے جج کوشی کنی نے کہا کہ عدالت تسلیم کرتی ہے کہ اس مقدمے میں متعدد شواہد من گھڑت تھے اور ہاکاماڈا مجرم نہیں تھے۔
رپورٹس کے مطابق ایواؤ ہاکاماڈا نے 1960 کی دہائی میں ابتدائی کارروائی کے دوران قتل کا اعتراف کیا تھا لیکن پھر وہ اپنے اعتراف سے مکر گئے، جو ان کے بقول تفتیش کے دوران پولیس کے وحشیانہ تشدد کا نتیجہ تھا۔
ان کا اعترافِ جرم سے مکر جانا کئی مقدمات کا اہم ترین نکتہ تھا، جس کی وجہ سے ان کی موت کی سزا کو بالآخر 1980 میں جاپان کی سپریم کورٹ نے برقرار رکھا۔
٨٨ سالہ سابق باکسر ایواؤ ہاکاماڈا 26 ستمبر 2024 کو شیزوکا پریفیکچر کے شہر ہماماتسو میں جیل سے باہر جاتے ہوئے (اے ایف پی)
دوبارہ مقدمے کی اپیل 2008 میں ان کی بہن ہیدیکو ہاکاماڈا نے دائر کی تھی، جو اب 91 سال کی ہیں اور عدالت نے بالآخر 2023 میں ان کے حق میں فیصلہ سنایا، جس سے اکتوبر میں شروع ہونے والے نئے مقدمے کی سماعت کی راہ ہموار ہوئی۔