سری نگر: وادی کشمیر کے سرکردہ صحافی سید شجاعت بخاری کو جمعہ کے روز شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ کے کریری میں اپنے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔
مقتول کی نماز جنازہ میں برستی بارش کے باوجود صحافیوں کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
ان اہم شخصیات میں نیشنل کانفرنس کے نائب صدر و سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ، جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے چیئرمین محمد یاسین ملک، ریاستی وزیر و حکومتی ترجمان نعیم اختر، کانگریس لیڈر پروفیسر سیف الدین سوز اور درجنوں مین اسٹریم و علیحدگی پسند لیڈران شامل ہیں۔ قریب تین دہائیوں تک میڈیا سے وابستہ رہنے والے شجاعت بخاری کو جمعرات کی شام نامعلوم بندوق برداروں نے پریس کالونی سری نگر میں اپنے دفتر کے باہر نذدیک سے گولیوں کا نشانہ بناکر قتل کردیا۔ حملے میں ان کے دو ذاتی محافظوں کو بھی قتل کیا گیا۔ شجاعت بخاری گذشتہ قریب دو دہائیوں سے سری نگر کے مضافاتی علاقہ میں مقیم تھے ۔ تاہم ان کے خاندان نے انہیں اپنے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کرنے کا فیصلہ لیا۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق شجاعت کی میت کو قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد جمعرات کی رات دیر گئے پولیس کنٹرول روم کشمیرسے ان کے آبائی گھر کریری منتقل کیا گیا جہاں جمعہ کو دوپہر کے وقت انہیں سپرد لحد کیا گیا۔ ان کی نماز جنازہ کریری میں واقع حاجی مراد بخاری (رح)کے آستان شریف سے ملحقہ وسیع و عریض میدان میں پڑھی گئی۔ بتادیں کہ پریس کالونی سری نگر میں نامعلوم بندوق برداروں نے جمعرات کی شام قریب سوا سات بجے سینئر صحافی شجاعت بخاری کی گاڑی پر فائرنگ کرکے انہیں اور ان کے دو ذاتی محافظین (پی ایس اوز) کو ہلاک کردیا۔ مہلوک پی ایس اوز کی شناخت ریاستی پولیس کے ایس جی کانسٹیبل عبدالحمید ولد راج محمد ساکنہ ٹنگڈار کپواڑہ اور کانسٹیبل ممتاز احمد ولد رحمت علی ساکنہ خانپورہ کرناہ کپواڑہ کی حیثیت سے کی گئی ہے ۔ ریاستی پولیس نے گذشتہ رات ایک پریس بیان میں کہا کہ ‘ ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک جنگجویانہ حملہ تھا’۔ تاہم کشمیر میں سرگرم جنگجو تنظیموں نے شجاعت بخاری کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے اس کے لئے ‘بھارتی ایجنسیوں’ کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے ۔ شجاعت بخاری انگریزی روزنامہ ‘رائزنگ کشمیر’، اردو روزنامہ ‘بلند کشمیر’، کشمیری روزنامہ ‘سنگرمال’ اور ہفتہ وار اردو میگزین ‘کشمیر پرچم’ کے مدیر اعلیٰ تھے ۔ انہوں نے کئی برسوں تک قومی انگریزی اخبار ‘دی ہندو’ کے ساتھ وابستہ رہنے کے بعد بالآخر 2008 میں ‘رائزنگ کشمیر’ شروع کیا تھا۔ شجاعت بخاری نے ‘رائزنگ کشمیر’ کی کامیاب شروعات کے بعد ‘بلند کشمیر’، ‘سنگرمال’ اور ‘کشمیر پرچم’ شروع کیا۔ ان کے حوالے سے خاص بات یہ تھی کہ وہ تینوں زبان (انگریزی، اردو اور کشمیر) میں لکھتے تھے ۔ وہ کشمیری زبان کی ترقی و ترویج کے لئے بھی سرگرم تھے ۔ شجاعت بخاری کے پسماندگان میں والدین، بیوی اور دو کم عمر بچے (بیٹا اور بیٹی) ہیں۔ 50 سالہ شجاعت بخاری قریب تین دہائیوں تک میڈیا سے وابستہ رہے ۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز ‘کشمیر ٹائمز’ سے بحیثیت رپورٹر کیا تھا۔ وہ 1997 سے 2012 تک ‘دی ہندو’ کے ساتھ وابستہ رہے ۔ وہ مختلف بین الاقوامی سطح کے میڈیا اداروں بالخصوص بی بی سی کے لئے لکھتے تھے ۔ شجاعت بخاری نے گذشتہ تین دہائیوں کے دوران کشمیر پر دنیا کے کئی ممالکوں میں ہونے والی کانفرنسوں میں شرکت کی۔ ان کا شمار وادی کشمیر کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے مبصریں میں ہوتا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق شجاعت بخاری پر اس سے قبل بھی تین حملے کئے گئے تھے ۔ 2006 میں قاتلانہ حملے کے بعد انہیں پولیس تحفظ فراہم کیا گیا تھا۔ وادی میں 1990 میں شروع ہوئی مسلح شورش کے بعد شجاعت بخاری پریس کالونی سری نگر میں قتل کئے جانے والے تیسرے صحافی بن گئے ہیں جبکہ وادی میں قتل ہونے والے پندرہویں صحافی ہیں۔ 10 ستمبر 1995 کو پریس کالونی میں اس وقت کے بی بی سی نامہ نگار یوسف جمیل کو نشانہ بنانے کر بم دھماکہ کیا گیا۔
اگرچہ دھماکے میں یوسف جمیل زخمی ہونے کے باوجود معجزاتی طور پر بچ گئے تھے ، وہیں اس میں فوٹو جرنلسٹ مشتاق علی جاں بحق ہوئے تھے ۔ اس کے بعد یکم فروری 2003 کو نافا نامی ایک مقامی خبر رساں ایجنسی کے ایڈیٹر پرویز محمد سلطان کو گولی مار کر قتل کردیا گیا۔
ایک رپورٹ کے مطابق سری نگر میں گذشتہ 28 برسوں کے دوران قریب 6 صحافیوں کو ہلاک کیا جاچکا ہے ۔ 23 اپریل 1991 میں اردو روزنامہ الصفا کے مدیر اعلیٰ محمد سبحان وکیل کو اس کے دفتر میں گولی مارکر قتل کردیا گیا۔ 19 فروری 1990 کو نامعلوم بندوق برداروں نے دور درشن کیندر سری نگر کے ڈائریکٹر لسہ کول کو سری نگر کے مضافاتی علاقہ میں گولی مار کر ہلاک کردیا۔ اس ہلاکت کی وجہ سے سری نگر میں دوردرشن کا کام کاج تین ماہ تک بند رہا تھا۔