سری نگر: وادی کشمیر میں سرگرم کچھ جنگجو تنظیموں کے اتحاد ‘متحدہ جہاد کونسل’ نے حزب المجاہدین کے مرحوم کمانڈر برہان مظفر وانی کی پہلی برسی کے سلسلے میں ایک ہفتے تک جاری رہنے والا احتجاجی پروگرام جاری کیا ہے ۔
پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر میں قائم متحدہ جہاد کونسل کے چیئرمین سید صلاح الدین جو کہ ‘حزب المجاہدین’ کے سپریم کمانڈر بھی ہیں، نے اس ایک ہفتہ طویل احتجاجی کلینڈر کا اعلان ایک ویڈیو بیان میں کیا ہے ۔ یہ بات یہاں قابل ذکر ہے کہ سید صلاح الدین کی جانب سے برہان وانی کی پہلی برسی پر ایک ہفتہ طویل احتجاجی پروگرام کا اعلان امریکہ کی طرف سے ا نہیں بین الاقوامی دہشت گرد قرار دیے جانے سے محض ایک روز قبل سامنے آیا ہے ۔ متحدہ جہاد کونسل کے چیئرمین نے اپنے ویڈیو بیان میں کہا ہے ‘8 جولائی کو حزب المجاہدین کے معصوم کمانڈر برہان مظفر وانی کی شہادت کا دن ہے ۔
اور 13 جولائی اذان کی تکمیل کرتے ہوئے 22 فرزندان وطن سینٹرل جیل (سری نگر) احاطے میں جام شہادت نوش کرتے ہیں۔ متحدہ جہاد کونسل جموں وکشمیر نے سرحد آر پار میدان کارزار اور بیس کیمپ میں 8 جولائی سے لیکر 13 جولائی تک ہفتہ شہدائے جموں وکشمیر پورے جوش وجذبے سے منانے کا اہتمام کیا ہے ‘۔ انہوں نے احتجاجی کلینڈر کی تفصیلات جاری کرتے ہوئے کہا ہے ‘ 7 جولائی جمعتہ المبارک کے دن علمائے کرام اور ائمہ مساجد شہادت کے مقدس مشن پر روشنی ڈالیں گے ۔ 8 جولائی کو شہید برہان مظفر وانی اور دیگر شہداء کو زبردست خراج عقیدت ادا کرنے اور اُن کے مشن کو آگے بڑھانے کے عزم کو دہرانے کے لئے ریاست گیر سطح پر ہڑتال ہوگی۔ اور تمام مرکزی مقامات بالخصوص قصبہ ترال میں عوامی اجتماعات کا انعقاد ہوگا’۔
سید صلاح الدین نے 12 جولائی تک مختلف نوعیت کے پروگراموں کا اعلان کرتے ہوئے 13 جولائی کو ریاست گیر ہڑتال کی کال دی ہے ۔ انہوں نے کہا ہے ‘ 13 جولائی کو 1931 ء کے عظیم شہداء کو خراج عقیدت ادا کرنے کے لئے ریاست گیر ہڑتال ہوگی ۔ دعائیہ مجالس اور ایصال ثواب کا اہتمام ہوگا’۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 13 جولائی 1931 ء کو سنٹرل جیل سری نگر کے باہر ڈوگرہ پولیس کی فائرنگ میں 22 کشمیر مارے گئے تھے اور تب سے مسلسل جموں وکشمیر میں 13 جولائی کو سرکاری سطح پر بحیثیت ‘یوم شہداء’ کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ 13 جولائی کشمیر کی گذشتہ 86برسوں کی تاریخ کا واحد ایسا دن ہیں جس کو سبھی مکتب ہائے فکر سے تعلق رکھنے والی جماعتیں مناتی آئی ہیں۔ نہ صرف اِس دن جموں وکشمیر میں سرکاری طور پر تعطیل ہوتی ہے بلکہ سرکاری سطح پر ہر سال سری نگر کے مزار شہداء واقع خواجہ نقشبند صاحب پر ایک تقریب منعقد کی جاتی ہے جہاں سیاسی لیڈران کا تانتا بندھا رہتا ہے ۔ حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر نے کہا ہے کہ کشمیری علیحدگی پسند قیادت مذکورہ پروگرام میں کوئی تبدیلی یا ترمیم کرنے کے مجاز ہیں۔ انہوں نے کہا ہے ‘قائدین تحریک حریت اگر مذکورہ پروگرام میں کوئی صحت مند تبدیلی یا ترمیم کرنا چاہیں گے تو وہ انشاء اللہ من وعن قابل قبول ہوگی’۔ خیال رہے گذشتہ برس 8 جولائی کو برہان وانی اور اس کے دیگر دو ساتھیوں کی ہلاکت کا واقعہ جنوبی ضلع اننت ناگ کے ککرناگ علاقہ میں پیش آیا۔ ایچ ایم کا پوسٹر بائے سمجھے جانے والے برہان کی ہلاکت کی خبر پھیلتے ہی پوری وادی ابل پڑی تھی اور گاؤں گاؤں میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے تھے ۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر موجودگی کے باعث برہان وانی کشمیر میں ایک گھریلو نام بن گیا تھا۔سخت ترین کرفیو اور پابندیوں کے باوجود ایک محتاط اندازے کے مطابق 9 جولائی کو قریب 5 لاکھ لوگوں نے ترال پہنچ کر برہان وانی کے جلوس جنازہ میں شرکت کی جبکہ نماز جنازہ کم از کم 4 بار ادا کی گئی۔
اسی روز وادی کے مختلف علاقوں میں سیکورٹی فورسز کی احتجاجی مظاہرین پر فائرنگ کے نتیجے میں کم از کم 10 افراد جاں بحق ہوئے ۔ برہان وانی کی ہلاکت کے خلاف وادی بھر میں بھڑک اٹھنے والے شدید پرتشدد احتجاجی مظاہروں کے بعد سخت ترین کرفیو کا نفاذ عمل میں لایا گیا تھا جس کو مختلف علاقوں میں 55 دنوں تک جاری رکھا گیا ۔ کشمیری عوام کے لئے حق خودارادیت کا مطالبہ کررہے حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں کے سربراہان مسٹر گیلانی و میرواعظ اور جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے چیئرمین یاسین ملک نے برہان وانی کی ہلاکت کے بعد ہفتہ وار احتجاجی کلینڈر جاری کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔برہان کی ہلاکت کے بعد وادی میں 19 نومبر 2016 ء کو پہلی بار کوئی ہڑتال نہیں رہی کیونکہ علیحدگی پسند قیادت نے اپنے ہفتہ وار احتجاجی کلینڈر میں دو روزہ ڈھیل کا اعلان کردیا تھا۔ وادی میں برہان وانی کی ہلاکت کے بعد علیحدگی پسند قیادت کی اپیل پر کم از کم 150 دن ہڑتال رہی۔ اس دوران سیکورٹی فورسز کی کاروائی میں کم از کم 96 عام شہری ہلاک جبکہ 15 ہزار دیگر زخمی ہوگئے ۔ اس کے علاوہ ریاستی پولیس کے دو اہلکار ہلاک جبکہ سیکورٹی فورسز بشمول ریاستی پولیس کے قریب پانچ ہزار اہلکار زخمی ہوگئے ۔ سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کی احتجاجی مظاہرین کے خلاف کاروائیوں کا سب سے المناک پہلو یہ رہا کہ سینکڑوں افراد بالخصوص نوجوان ایسے ہیں جو چھرے (پیلٹ) لگنے سے اپنی ایک یا دونوں آنکھوں کی بینائی سے محروم ہوگئے ۔ کشمیر کی تجارتی انجمنوں کا کہنا ہے کہ برہان وانی کی ہلاکت کے بعد ہڑتال کے باعث وادی کی معیشت کو ہر ہڑتال کے دن اوسطً 120 کروڑ روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑتا تھا۔ اس رقم کو 150سے ضرب دی جائے تو وادی کو چھ ماہ کے دوران 18 ہزار کروڑ کے نقصان سے دوچار ہونا پڑا تھا۔