سری نگر: جموں وکشمیر کے ضلع پونچھ میں پاکستان کے ساتھ لگنے والی لائن آف کنٹرول کے نذدیک ایک ایسا گائوںآباد ہے جس کی 80 فیصد آبادی قوتِ سماعت و گویائی سے محرم ہے ۔ منڈی سب ڈویژن کے تحت آنے والے اس گائوںکا نام ‘پرالکوٹ’ ہے ۔
یہ گائوں گذشتہ قریب پانچ دہائیوں سے ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہے جس کے باعث یہاں پیدا ہونے والے بیشتر بچے اچانک بہرے اور گونگے ہوجاتے ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ پانچ دہائیوں کا عرصہ گذر جانے کے باوجود ریاستی حکومت کی جانب سے اس پراسرار بیماری کا علاج ڈھونڈنے کی کوششیں نہیں کی گئی ہیں۔ اب بشری حقوق کے ریاستی کمیشن نے معاملے کی سنگینی کو بانپتے ہوئے ریاستی حکومت کو نوٹس ارسال کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ مجوزہ نوٹس میں ریاستی حکومت کو اس اسرار بیماری کی وجوہات اور علاج دریافت کرنے اور متاثرہ افراد کو ویلفیئر اسکیموں سے فوائد پہنچانے کے لئے کہا جائے گا۔
مقامی روزنامہ ‘ایکسلشر’ جس کی ایک ٹیم نے متاثرہ گائوںکا دورہ کیا ہے ، نے پراسرار بیماری میں مبتلا اس گائوںپر ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے ۔ پرالکوٹ کا یہ گائوں300 نفوس پر مشتمل ہے اور ان میں سے جو اس پراسرار بیماری کا شکار ہونے سے بچ گئے ہیں، وہ کشمیری یا اردو زبان میں بات کرتے ہیں۔یہ گائوںچاروں اطراف سے دلکش چٹانوں سے گھرا ہوا ہے ۔
گائوںمیں اگرچہ ایک مڈل اسکول بھی ہے ، تاہم قوت سماعت و گویائی سے محروم طلبائکے لئے کوئی مخصوص انتظام یا سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔ مکینوں کا کہنا ہے کہ ان کے ہاں اب کوئی رشتہ مانگنے بھی نہیں آتا ہے اور بیشتر بیٹیاں شادی کی عمر پار کرچکی ہیں۔ پرالکوٹ کے رہائشی محمد حافظ کہتے ہیں ‘میری پہلی لڑکی جب پیدا ہوئی تو وہ ایک عام بچے کی طرح بات کرنے اور سننے لگی۔ اس نے آٹھویں جماعت تک پڑھا۔ پھر آہستہ آہستہ اس نے بات کرنا چھوڑ دیا۔ آج یہ بالکل بھی بات نہیں کرتی ہے ۔ ہم نے بہت کوششیں کیں لیکن یہ بات نہیں کرپاتی ہے ۔ میری بھتیجی بھی میری بیٹی کی طرح سن پاتی ہے اور نہ بات کرپاتی ہے ۔ ہم نے بہت مرتبہ انتظامیہ کے سامنے انصاف کی گوہار لگائی مگر کچھ نہیں ہوا’۔
محمد حافظ نے مزید کہا ‘یہ جوان بیٹیاں ہیں۔ ان کے ہاتھ مانگنے بھی کوئی نہیں آتا۔ میری گورنر انتظامیہ سے اپیل کرتا ہوں کہ ان بچیوں کے بارے میں کچھ سوچا جائے ‘۔
محمد اسمٰعیل نامی رہائشی نے بتایا ‘آپ کو یہاں ہر گھر میں بہرے اور گونگے ملیں گے ۔ کسی گھر میں ایک بچہ ہے ۔ کسی گھر میں دو ہیں۔ کسی گھر میں بزرگ اس پراسرار بیماری سے دوچار ہیں۔ میں نے بہت بار یہاں کیمپ لگوائے لیکن کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے ‘۔
ان کا کہنا تھا ‘کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ اس پراسرار بیماری کی وجہ یہاں موجود ایک چشمہ ہے ۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس چشمے کے پانی میں کوئی خرابی ہے ۔ پھر ہم نے اس چشمے کا پانی ہی بند کردیا۔ تیس سال ہوگئے ہیں کہ ہم نے اس چشمے کا پانی مکمل طور پر بند کردیا ہے ۔ لیکن یہ سب کرنے کے باوجود مسئلہ حل نہیں ہوا۔ کچھ رشتہ دار آئے اور کہنے لگے کہ آپ اپنی برادری میں شادی کرنا بند کرو۔ ہم نے دوسرے دیہات سے لڑکیوں کو شادی کرکے یہاں لایا۔ ان عورتوں نے جن بچوں کو جنم دیا،وہ بھی اس پراسرار بیمار کے شکار ہوگئے ۔ یہ شاید اللہ کی طرف سے امتحان ہے ‘۔ مقامی مڈل اسکول کے ایک استاد کا کہنا ہے ‘یہاں قریب 28 کنبے ہیں۔ ہر ایک کنبے میں ایک یا دو فرد بہرے اور گونگے ہیں۔ جو طلبائاس بیماری سے دوچار ہیں، وہ گرچہ قابل ہیں تاہم وہ قوت سماعت سے محروم ہیں۔ ہم انہیں زیادہ تر اشاروں میں سمجھاتے ہیں۔ ان کو صرف کشمیری زبان سمجھ میں آتی ہے ۔ ان کو پڑھنے کے دوچار دقعتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ایک ٹیچر کو طالب علم کے بالکل قریب جاکر اسے سمجھانا پڑتا ہے ‘۔
اسکول میں تعینات ایک خاتون ٹیچر کا کہنا تھا ‘ہمیں ان بچوں کو پڑھانے میں بہت مشکلوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ ہماری گورنر انتظامیہ سے التجا ہے کہ ان طلبائکے لئے کسی خاص سہولیت کا انتظام کیا جائے ‘۔
مذکورہ اسکول میں زیر تعلیم ایک طالب علم نے بتایا ‘میرے ساتھ اسکول میں پڑھنے والے میرے دوست بھی اس پراسرار بیماری سے متاثر ہیں۔ ہم ان کی مدد کرکے انہیں اشاروں کے ذریعے پڑھاتے ہیں۔ ان کو بھی پڑھنے کا شوق ہے لیکن وہ قوت سماعت کے مسئلے سے دوچار ہونے کی وجہ سے سمجھ نہیں پاتے ہیں’۔
چیف میڈیکل آفیسر پونچھ ڈاکٹر ممتاز بھٹی کا کہنا ہے کہ وہ ناظم صحت جموں کو ایک مکتوب روانہ کرکے انہیں ماہرین کی ایک ٹیم پرالکوٹ بھیجنے کا مطالبہ کریں گے ۔ انہوں نے کہا ‘پرالکوٹ ایک چھوٹا گائوںہے ۔ یہ گائوںقریب دو سو نفوس پر مشتمل ہے ۔ وہاں کے بچے پہلے پہلے عام بچوں کی طرح بات کرتے ہیں اور سنتے ہیں ، لیکن وہ بعدازاں بہرے اور گونگے بن جاتے ہیں۔ ہم نے وہاں ٹیمیں بھی بھیجیں تھیں۔ میں ناظم صحت جموں کو ایک مکتوب ارسال کروں گا اور ان سے گذارش کروں گا کہ مہایرین کی ایک ٹیم پرالکوٹ بھیجی جائے ۔ یہ کوئی جینیاتی مسئلہ ہوسکتا ہے ۔ وہاں ماہرین کی ٹیم بھیجنے سے ہم اس بیماری کی اصل وجہ کا پتہ لگاسکتے ہیں’۔