سری نگر: پارلیمنٹ پر 13 دسمبر 2001 ء یعنی آج سے سولہ سال قبل ہونے والے حملے میں مجرم قرار دیے گئے محمد افضل گورو جنہیں 9 فروری 2013 ء کو دلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دی گئی تھی، کی پانچویں برسی کے موقع پر جمعہ کو وادی کشمیر میں مزاحمتی قیادت کی اپیل پر مکمل ہڑتال رہی جس کی وجہ سے عام زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی۔
افضل گورو کو تہاڑ جیل میں تختہ دار پر لٹکانے کے بعد اُن کی جسد خاکی کو جیل کے احاطے میں ہی سپرد خاک کیا گیا تھا۔ کشمیری مزاحمتی قیادت سید علی گیلانی، میرواعظ مولوی عمر فاروق اور محمد یاسین ملک کے علاوہ دیگر متعدد علیحدگی پسند راہنماؤں نے محمد افضل گورو کو پھانسی دیے جانے کے پانچ برس مکمل ہونے پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے 9فروری کو مکمل ہڑتال اور جموں کشمیر کی سبھی مساجد میں محمد افضل گورو اور جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے بانی محمد مقبول بٹ کی باقیات کی واپسی کے لئے آواز بلند کرنے کی غرض سے ایک قرار داد پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اسی حوالے سے پرامن احتجاجی مظاہرے کرنے کی اپیل کی تھی۔ مزاحمتی قیادت کا کہنا ہے کہ ان دونوں کشمیریوں (افضل گورو اور مقبول بٹ) کو نہ صرف یہ کہ تختہ دار پر لٹکاکر جاں بحق کیا گیا بلکہ ان کی اجسد خاکی اور باقیات کو آج تک واپس نہیں کیا گیا ۔ قابل ذکر ہے کہ سری نگر کے عیدگاہ علاقہ میں واقع تاریخی مزار شہداء میں دو قبریں افضل گورو اور مقبول بٹ کی باقیات کے لئے خالی رکھی گئی ہیں۔ لبریشن فرنٹ کے بانی محمد مقبول بٹ کو 11 فروری 1984 کے دن دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دی گئی تھی اور وہیں دفن کیا گیا تھا۔
کشمیر انتظامیہ نے افضل گورو کی پانچویں برسی کے پیش نظر علیحدگی پسند راہنماؤں اور کارکنوں کو کسی بھی احتجاجی جلوس یا ریلی کا حصہ بننے سے روکنے کے لئے تھانہ یا خانہ نظربند کردیا ہے ۔ اس کے علاوہ گرمائی دارالحکومت سری نگر میں حساس مانے جانے والے علاقوں میں کرفیو جیسی پابندیاں نافذ رکھی گئیں۔ شمالی کشمیر کے ایپل ٹاون سوپور جو کہ افضل گورو کا آبائی قصبہ ہے ، میں بھی کرفیو جیسی پابندیاں نافذ رکھی گئیں۔ سیکورٹی وجوہات کی بناء پر وادی بھر میں ریل سروس معطل رکھی گئی۔ بزرگ علیحدگی پسند راہنما و حریت (گ) چیئرمین مسٹر گیلانی کو گذشتہ آٹھ برسوں سے ائرپورٹ روڑ پر واقع حیدرپورہ میں اپنی رہائش گاہ پر نظر بند رکھا گیا ہے ۔
حریت (ع) کے ایک ترجمان نے بتایا کہ چیئرمین میرواعظ کو 11 روز کی مسلسل نظربندی کے بعد 6 فروری کو رہا کیا گیا، لیکن اگلے روز یعنی 7 فروری کو انہیں دوبارہ نظربند کیا گیااور تب سے لیکر اب تک انہیں بدستور نظربند رکھا گیا ہے ۔ لبریشن فرنٹ کے چیئرمین یاسین ملک کو 6 فروری کو گرفتار کرکے سینٹرل جیل سری نگر منتقل کیا گیا۔ فرنٹ کے ایک ترجمان نے بتایا ‘مسٹر ملک کو 6 فروری کو ایک اور فرنٹ قائد غلام محمد ڈار کے ہمراہ اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ یہاں فرنٹ کے دفترواقع آبی گزر پر موجود تھے ۔ بعدازان دونوں گرفتارشدگان کو عدالتی تحویل پر سری نگر سینٹرل جیل منتقل کیا گیا’ ۔ ریلوے کے ایک سینئر عہدیدار نے یو این آئی کو بتایا ‘ ہم نے ریل سروس کو سیکورٹی وجوہات کی بناء پر معطل کیا ہے ‘۔
انہوں نے بتایا کہ شمالی کشمیر کے بارہمولہ اور جموں خطہ کے بانہال کے درمیان جمعہ کو کوئی بھی ریل گاڑی نہیں چلے گی۔ مذکورہ عہدیدار نے بتایا ‘ریل سروس کو معطل رکھنے کا فیصلہ ریاستی پولیس کی جانب سے اس حوالے سے ہدایات ملنے کے بعد لیا گیا ہے ‘۔ مزاحمتی قیادت کی جانب سے بلائی گئی ہڑتال کے نتیجے میں سری نگر اور اس کے مضافاتی علاقوں میں دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی آمدورفت معطل رہی۔ سری نگر کے پائین شہر اور سیول لائنز کے کچھ علاقوں میں احتجاجی مظاہروں کو روکنے کے لئے کرفیو جیسی پابندیاں نافذ رہیں جن کی وجہ سے وہاں تمام طرح کی سرگرمیاں مفلوج رہیں۔
پولیس نے بتایا کہ پائین شہر اور سیول لائنز کے کچھ علاقوں میں امن وامان کی صورتحال کو بنائے رکھنے کے لئے دفعہ 144 سی آر پی سی کے تحت پابندیاں نافذ کی گئی ہیں۔ تاہم ایسے علاقوں میں زمینی صورتحال پولیس کے دعوؤں کے برخلاف نظر آئی کیونکہ لوگوں کو یہ کہتے ہوئے گھروں تک ہی محدود رہنے کے لئے کہا جارہا تھا کہ علاقہ میں کرفیو نافذ کیا گیا ہے ۔ پابندی والے بیشتر علاقوں میں سڑکوں کو خاردار تاروں سے سیل کردیا گیا تھا۔ پائین شہر کے سبھی علاقوں میں احتجاجی مظاہروں کو روکنے کے لئے سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کی بھاری جمعیت تعینات رہی۔ پائین شہر کے نوہٹہ علاقہ میں واقع تاریخی جامع مسجد جہاں حریت (ع) چیئرمین میرواعظ ہر جمعہ کو اپنا معمول کا خطبہ دیتے ہیں، کے باب الداخلوں کو ایک بار پھر مقفل رکھا گیا ۔ اس تاریخی مسجد کے باہر سینکڑوں کی تعداد میں سیکورٹی فورس اہلکار تعینات رہے ۔ یو این آئی کے ایک نامہ نگار جس نے پائین شہر کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا، نے بتایا کہ نالہ مار روڑ کو خانیار سے تارہ بل نواح کدل تک سیل رکھا گیا تھا۔ اس کے علاوہ بلبل لانکر، نواح کدل، کاوڈارہ، رانگر اسٹاف، گوجوارہ، کاؤڈارہ اور راجوری کدل علاقوں کی بنیادی سڑکیں بھی بند کردی گئی تھیں۔ عام دنوں میں انتہائی مصروف رہنے والے سیول لائنز اور بالائی شہر میں بہت ہی کم راہگیراور سبزی و پھل فروخت کرنے والے چھاپڑی فروش نظر آئے ۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی کے باعث سری نگر کے بیشتر سرکاری دفاتر اور بینکوں میں معمول کا کام کاج بری طرح متاثر رہا۔ بیشتر ٹیوشن اور کوچنگ سنٹروں نے 9 اور 11 فروری کو اعلان کر رکھا ہے کیونکہ مزاحمتی قیادت کی اپیل پر محمد افضل گورو کی پانچویں برسی اور جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے بانی محمد مقبول بٹ کی 34 ویں برسی پر بالترتیب 9 اور 11 فروری کو وادی میں ہڑتال رہے گی۔
سیول لائنز میں مائسمہ جہاں جے کے ایل ایف کا ہیڈکوارٹر واقع ہے ، کی طرف جانے والی سڑکوں کو خاردار تار سے بند رکھا گیا تھا۔ تاہم تاریخی لال چوک کو پابندیوں سے مستثنیٰ رکھا گیا ۔ شمالی کشمیر کے ایپل ٹاون سوپور اور دیگر قصبوں و تحصیل ہیڈکوارٹروں میں بھی علیحدگی پسند راہنماؤں کی اپیل پر مکمل ہڑتال کی گئی۔ افضل گورو کے آبائی قصبہ سوپور میں تمام دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی آمدورفت بند رہی۔ سرکاری دفاتر، مالیاتی اداروں اور دیگر اداروں میں معمول کا کام بری طرح سے متاثر رہا۔ تاہم اس قصبے جو حریت کانفرنس (گ) چیرمین سید علی گیلانی کا بھی آبائی علاقہ ہے ، میں گورو کی برسی پر احتجاجی مظاہروں کو روکنے کے لئے سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کی اضافی نفری تعینات رہی۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ قصبہ سوپور میں امن وامان کی صورتحال کو بنائے رکھنے کے لئے پابندیاں نافذ رہیں۔موصولہ اطلاعات کے مطابق سیکورٹی فورسز نے سوپور کی طرف جانے والی سڑکوں کو خاردار تار سے سیل کیا تھا۔ بارہمولہ سے بھی مکمل ہڑتال کی اطلاعات موصول ہوئیں جہاں تمام تجارتی اور دیگر سرگرمیاں معطل رہیں۔ قصبے میں اولڈ ٹاون کو سیول لائنز کے ساتھ جوڑنے والے پلوں پر سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات رہی۔ اننت ناگ سے موصولہ ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی کشمیر کے اس اور دیگر قصبوں اور تحصیل ہیڈکوارٹروں میں بھی ہڑتال کی وجہ سے معمولات زندگی مکمل طور پر مفلوج رہے ۔ جنوبی کشمیر میں دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی آمدورفت معطل رہی۔ سرکاری دفاتر اور بینکوں میں معمول کا کام کاج متاثر رہا۔ تاہم سری نگر جموں قومی شاہراہ پر اکا دکا گاڑیاں چلتی ہوئی نظر آئیں۔ ایسی ہی رپورٹیں وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام اور گاندربل سے بھی موصول ہوئیں۔