سری نگر:کشمیر انتظامیہ نے مسلسل تیسرے جمعہ کو بھی سری نگر کے پائین شہر میں واقع تاریخی جامع مسجد میں کرفیو جیسی پابندیوں کے ذریعے ‘نماز جمعہ’ کی ادائیگی ناممکن بنادی۔
یہ پابندیاں سرکاری ذرائع کے مطابق پارلیمنٹ پر 13 دسمبر 2001 ء کو ہونے والے حملے میں مجرم قرار دیے گئے محمد افضل گورو جنہیں 9 فروری 2013 ء کو دلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دی گئی تھی، کی پانچویں برسی کے موقع پر امن وامان کی صورتحال کو بنائے رکھنے کے لئے نافذ کی گئی تھیں۔ نوہٹہ جہاں یہ 624 برس قدیم جامع مسجد واقع ہیں، کے مکینوں نے بتایا کہ سیکورٹی فورسز نے مسلسل تیسرے جمعہ کو بھی کشمیری عوام کی اس سب سے بڑی عبادت گاہ کے باب الداخلے کو مقفل کیا اور کسی کو بھی مسجد کے احاطے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ انہوں نے بتایا ‘جمعہ کی صبح سے سیکورٹی فورسز کی بھاری جمعیت جامع مسجد کے دروازوں بالخصوص باب الداخلے پر تعینات کی گئی۔ انہوں نے جامع مسجد کی جانب پیش قدمی کو روکنے کے لئے خاردار تار بچھاکر راستوں کو سیل کیا تھا’۔ اہلیان نوہٹہ نے بتایا کہ رواں سال 26 جنوری سے یہ مسلسل تیسرا جمعہ ہے کہ جب تاریخی جامع مسجد میں ‘نماز جمعہ’ کی ادائیگی ناممکن بنائی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ گذشتہ برس (2017) میں 18 بار پائین شہر میں پندیوں کے ذریعے جامع مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی پر روک لگائی گئی۔ جامع مسجد کو سال 2016 میں حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان مظفر وانی کی ہلاکت کے بعد مہینوں تک بند رکھا گیا تھا۔
19 ویں صدی میں اس تاریخی مسجد کو سکھ حکمرانوں نے 1819 ء سے 1842 ء تک مسلسل 23 برسوں تک بند رکھا تھا۔ جامع مسجد میں 26 جنوری یوم جمہوریہ کے موقع پر (جو کہ جمعہ کا دن تھا) سخت ترین بندشوں کے ذریعے نماز کی ادائیگی ناممکن بنائی گئی تھی۔ اس کے بعد 2 فروری کو کشمیری مزاحمتی قیادت سید علی گیلانی، میرواعظ مولوی عمر فاروق اور محمد یاسین ملک کی طرف سے دی گئی ‘شوپیان چلو’کی کال کو ناکام بنانے کے لئے انتظامیہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کی وجہ سے جامع مسجد میں نماز کی ادائیگی ناممکن بن گئی تھی۔ خیال رہے کہ کشمیری مزاحمتی قیادت کے علاوہ دیگر متعدد علیحدگی پسند راہنماؤں نے محمد افضل گورو کو پھانسی دیے جانے کے پانچ برس مکمل ہونے پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے 9فروری کو مکمل ہڑتال اور جموں کشمیر کی سبھی مساجد میں محمد افضل گورو اور جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے بانی محمد مقبول بٹ کی باقیات کی واپسی کے لئے آواز بلند کرنے کی غرض سے ایک قرار داد پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اسی حوالے سے پرامن احتجاجی مظاہرے کرنے کی اپیل کی تھی۔
تاہم کشمیر انتظامیہ نے احتجاجی مظاہروں کے دوران تشدد بھڑک اٹھنے کے خدشے کے پیش نظر نہ صرف سری نگر کے سات پولیس تھانوں کے تحت آنے والے علاقوں میں جزوی یا کلی طور پر کرفیو جیسی پابندیاں عائد کردیں، بلکہ علیحدگی پسند قائدین و کارکن کو تھانہ یا خانہ نظربند کرنے کے علاوہ وادی میں شمالی کشمیر کے بارہمولہ اور جموں خطہ کے بانہال کے درمیان چلنے والی ریل خدمات بھی معطل کرادیں۔ سری نگر میں پابندیوں کی وجہ سے مسلسل تیسرے جمعہ کو بھی نماز جمعہ کا اجتماع منعقد نہ ہوسکا۔ تاہم وادی کی بیشتر دیگر مساجد میں نماز جمعہ کے اجتماعات معمول کے مطابق منعقد ہوئے ۔ درجنوں مساجد، زیارت گاہوں، خانقاہوں اور امام بارگاہوں میں محمد افضل گورو اور جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے بانی محمد مقبول بٹ کی باقیات کی واپسی کے لئے مزاحمتی قیادت کی طرف سے مرتب کردہ قرارداد پیش کرکے عوام سے تائید کرائی گئی۔ حریت کانفرنس (ع) چیئرمین میرواعظ جو ہر جمعہ کو نماز کی ادائیگی سے قبل تاریخی جامع مسجد میں نمازیوں سے خطاب کرتے ہیں، کو 7 فروری سے اپنی رہائش گاہ پر نظربند رکھا گیا ہے جبکہ جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے یل ایف) چیئرمین محمد یاسین ملک کو گذشتہ روز حراست میں لیکر سینٹرل جیل سری نگر منتقل کیا گیا۔ بڑے پیمانے کے احتجاجی مظاہروں کو روکنے کے لئے متعدد دیگر علیحدگی پسند قائدین و کارکنوں کو تھانہ یا خانہ نظربند کیا گیا تھا۔
بزرگ علیحدگی پسند راہنما مسٹر گیلانی کو گذشتہ کئی برسوں سے اپنے گھر میں نظربند رکھا گیا ہے ۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ شہر میں امن وامان کی فضا کو برقرار رکھنے کے لئے شہر کے نوہٹہ، صفا کدل ، ایم آر گنج، خانیار، صفا کدل، کرال کڈھ اور مائسمہ پولیس تھانوں کے تحت آنے والے علاقوں میں دفعہ 144 سی آر پی سی کے تحت پابندیاں نافذ کی گئی تھیں۔ انہوں نے بتایا ‘ان پابندیوں کے نفاذ کا خالص مقصد امن وامان کی صورتحال کو برقرار رکھنا تھا’۔ تاہم اس دعوے کے برخلاف پائین شہر کے مختلف حصوں بالخصوص نوہٹہ میں جمعہ کی صبح سے ہی کرفیو جیسی پابندیاں نافذ رہیں جن کے ذریعے ایسے علاقوں میں شہریوں کی نقل وحرکت محدود کردی گئی۔ یو این آئی کے ایک نامہ نگار جس نے جمعہ کی صبح پائین شہر کے مختلف حصوں کا دورہ کیا، نے پائین شہر کی بیشتر سڑکوں پر خاردار تاریں بچھی ہوئی پائی۔انہوں نے بتایا کہ تاریخی جامع مسجد کے تمام دروازوں کو جمعہ کی صبح ہی مقفل کردیا گیا تھا جبکہ اس کے باہر سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کی گئی تھی۔ نامہ نگار کے مطابق کچھ ایک حساس جگہوں پر سیکورٹی فورسز نے اپنی بلٹ پروف گاڑیاں کھڑی کردی گئی تھیں۔