سری نگر:ایران، ترکی اور پاکستان میں انتہائی کامیاب اور مقبول ثابت ہونے والی ‘دیوار مہربانی’ مہم اب جموں وکشمیر کے گرمائی دارالحکومت سری نگر بھی پہنچ چکی ہے ۔ سری نگر میں ‘دیوار مہربانی’ تاریخی لال چوک سے قریب 500 میٹر کی دوری پر واقع آبی گذر میں دریائے جہلم کے کنارے قائم کی گئی ہے ۔
ایران کے شہر مشہد سے شروع ہونے والی اس ‘دیوار مہربانی’ مہم کا مقصد مہربانی کے تصور کو عام کرنا اور ضرورتمندوں کی ضرورت بنا مانگے پوری کرنا ہے ۔ سری نگر میں شروع کی گئی اس مہم کو بڑے پیمانے پر پذیرائی حاصل ہورہی ہے اور عوامی ردعمل سے معلوم ہوجاتا ہے کہ آنے والے کچھ ہفتوں کے اندر وادی میں جگہ جگہ ‘دیوار مہربانی’ دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔
سری نگر میں ‘ہو از حسین’ نامی ایک عالمگیر فلاحی تنظیم سے وابستہ نوجوانوں نے موسم سرما کی ٹھٹھرتی سردی کی شدت سے پریشان غرباء اور مفلس لوگوں کوراحت پہنچانے کے لئے یہ مہم یہاں متعارف کردی ہے ۔
آبی گذر میں قائم کی گئی ‘دیوار مہربانی’ پر جہاں صاحبان ثروت لوگ مختلف قسموں کے گرم ملبوسات اور دوسری چیزیں اکھٹا کرکے دیوار پر آویزاں رکھنے لگے ہیں، وہیں محتاج و مفلس لوگ آکران چیزوں خاص طور پر ملبوسات کو لے جاتے اور سردی سے بچنے کی سبیل کرتے ہوئے نظر آئے ۔ ‘ہو از حسین’ سے وابستہ نوجوانوں نے سری نگر میں یہ مہم منگل کو شروع کردی اور بدھ کی صبح ‘دیوار مہربانی’ کو دیکھنے والے یو این آئی کے نامہ نگار نے دیوار پر بھاری تعداد میں مختلف قسم کے گرم ملبوسات آویزان دیکھے ۔ اس دیوار پر انگریزی زبان میں جلی حروف میں لکھا ہے ‘اگر ضرورت ہے تو لے جاؤ اور اگر آپ کے پاس ہے تو لاکر آویزاں رکھو’۔
‘ہو از حسین’ ایک بین الاقوامی سطح کی تنظیم ہے ۔ نواسہ رسول ) ص( حضرت امام حسین کی شہادت عظمیٰ کا آفاقی درس انسانی اس تنظیم کا محرک ہے ۔
تنظیم کے کشمیر چیپٹرکے ایک رضا کار عاطف علی نے یواین آئی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہو از حسین’ تنظیم نے کشمیر میں سردیوں کے پیش نظر ‘دیوار مہربانی’ کی مہم شروع کی تاکہ محتاجوں اور مفلسوں کو راحت اور آرام میسر ہوسکے ۔ انہوں نے کہا کہ ابتدا میں تنظیم کے رضا کاروں نے اپنے گھروں سے اضافی گرم ملبوسات یہاں دیوار پر آویزاں رکھے اور پھر جب لوگوں نے دیکھا تو پورے دن لوگ اپنے گھروں سے گرم کپڑے لاتے رہے تاکہ مفلس لوگ ان کو لے کر استعمال کر سکیں۔
عاطف کا کہنا ہے کہ سری نگر میں اس تنظیم کے ساتھ 20 نوجوان وابستہ ہیں اورانسانیت کی خدمت اور مثبت سوچ وفکر کی ترویج اس تنظیم کا منتہائے مقصد ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ‘دیوار مہربانی’ شروع کرکے ہم ایک عوامی اور مشترکہ پلیٹ فارم کھڑا کرنا چاہتے ہیں جس سے لوگ بلا لحاظ مسلک وملت اور بغیر کسی شرمندگی کے مستفید ہوسکیں۔ انہوں نے کہا کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ محتاجوں کوہاتھ پھیلانے میں عزت نفس کا خیال آڑے آتا ہے لہذا ہم کوشش کرتے ہیں اس مہم کی وساطت سے محتاجوں کی حاجت روائی بھی ہو اور انکی عزت نفس بھی بحال رہے ۔عاطف نے کہا کہ سری نگر میں اس مہم کے انتہائی حوصلہ افزا نتائج بر آمد ہورہے ہیں اور لوگ اس مہم کو سراہتے بھی ہیں اور اس کی بھر معاونت بھی کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا لوگ جس طریقے سے ہماری مدد کررہے ہیں وہ ہماری توقعات سے باہر ہے ۔
انہوں نے کہا ‘مجھے وادی کے مختلف علاقوں سے نوجوان فون کررہے ہیں تاکہ وہ بھی اپنے اپنے علاقوں میں ایسی مہمیں شروع کرکے مفلسوں کی کفالت کرنے کی سبیل کرسکیں’۔
عاطف علی نے کہا یہ تحریک در اصل ایران سے شروع ہوئی اور دنیا کے 60 ممالک میں یہ منفرد تحریک خدمت خلق کے لئے مصروف عمل ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اس سے قبل بھی یہاں اس تنظیم کے تحت کئی پروگرام منعقد ہوئے جن میں یتیموں اور جسمانی طور معذور لوگوں کی مدد کی گئی ۔
‘ہو از حسین’ سے وابستہ ایک اور نوجوان رضاکار نے بتایا ‘ہم نے یہاں دیوار مہربانی کو متعارف کردیا ہے ۔ یہ آئیڈیا ترکی اور ایران میں کافی مشہور اور کامیاب ثابت ہوا ہے ۔ ہم نے اس آئیڈیا کو کشمیر میں متعارف کرنے کی کوشش کی ہے ۔ لوگ اگر اپنے کپڑے یا دوسری گھریلو استعمال کی اشیاء عطیہ کرنا چاہتے ہیں تو وہ یہاں آکر اپنی چیزوں کو اس دیوار پر آویزاں کرسکتے ہیں۔ ضرورتمند افراد اپنی ضرورت کے حساب یہاں سے گھریلو استعمال کی چیزیں بالخصوص کپڑے لے جاسکتے ہیں’۔ تنظیم سے وابستہ ایک خاتون رضاکار کا کہنا تھا ‘یہ اقدام خلوص پر مبنی ہے ۔ ہمارے یہاں لوگ ایسے ہیں جو ضرورت کی چیزیں مانگنے سے شرماتے ہیں۔ ایسے ضرورتمند افراد یہاں سے اپنی ضرورت کی چیزیں لے جاسکتے ہیں۔ انہیں یہاں کسی سے اس کی اجازت حاصل نہیں کرنی ہوگی’۔
کشمیر یونیورسٹی کے مدثر حسین نامی ایک ریسرچ اسکالر نے اس تحریک کے متعلق بات کرتے ہوئے یو ین آئی کو بتایا ‘عصر حاضر کی چکاچوند مادیت پرستی میں اس نوعیت کی تنظیموں کی جہاں حد درجہ ضرورت ہے وہیں یہ بات بھی عیاں ہوجاتی ہے کہ اس اندھیرے میں محتاجوں کی امیدوں کے چراغ بھی برابر فروزاں ہیں’۔ انہوں نے کہا کشمیر میں نامساعد حالات کی وجہ سے لوگوں کا جینا دو بھر ہوگیا ہے ، محتاجوں ، بیواؤں ، یتیموں اور مفلسوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ، ٹھٹھرتی سردی غریبوں کی زندگیوں کو مزید اجیرن بنادیتی ہیں ،لہذا ‘ ہو از حسین’ مشن کے تحت ‘دیوار مہربانی’ کا یہ اقدام ان کی پریشانیوں کو کافی حد تک کم کرنے میں معاون ثابت ہوگا ۔