لکھنؤ ۱۸ اگست:بابری مسجد کو دوسری جگہ منتقل کرنے اور مسجد کی زمین کو رام مندر کے لئے دیے جانے کے سلسلے میں آرہے مختلف بیانات کی مولانا سید کلب جواد نقوی نے سخت الفاظ میں مذمت کی ۔مولانا نے کہاکہ جو لوگ بابری مسجد کو رام جنم بھومی کے لئے دینے کی بات کررہے ہیں وہ اپنا گھر دینے کا حق تو رکھتے ہیں مگر مسجد کی زمین پر انکا کوئ اختیار نہیں ہے۔
آج تاریخی مسجد آصفی میں خطبہ جمعہ میں مولانا کلب جواد نے ان بیانات کی نفی کر دی جن میں بابری مسجد کی زمین مندر کے لئے دینے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان مسائل میں مستند مراجع کرام کی طرف رجوع کیا جانا چاہئے ۔مولانا نے مجلس علماء ہند اور شیعہ مؤقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ ہم بابری مسجد کے معاملے پر عدالت کے فیصلے کا احترام کرینگے اور شیعہ قوم مسلم پرسنل لاء کے ساتھ ہے کیونکہ مسجد کو نہ منتقل کیا جاسکتاہے اور نہ مسجد کی زمین کسی دوسرے کو دی جاسکتی ہے ۔
مولانا کلب جواد نے شہر لکھنو میں منعقد ہورہیں خفیہ کلاسیز پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہاکہ میرے سابقہ بیان کے بعد کئ لوگوں نے کہا کہ ہم نے انکی کتابیں دیکھی ہیں ان میں کوئ قابل اعتراض مواد شامل نہیں ہے ۔مولانانے کہاکہ اگر انکی کتابوں میں قابل اعتراض مواد موجود نہیں ہے تو پھر ان کلاسیز کو خفیہ کیوں رکھا جاتاہے ۔بہتر ہوگا کہ اگر ان کلاسیز کو علی الاعلان کیا جائے تاکہ معلوم ہوکہ انکا مدرس نوجوانوں کو کیا پڑھا رہاہے ۔مولانانے کہا کہ در اصل یہ کتابیں دھوکہ دینے کے لئے ہیں ورنہ انکا مقصد مرجعیت ،عمامے ،علماء کرام اور شیعیت کے بنیادی عقائد کے خلاف نوجوانوں کو ذہنی طور پر تیار کرناہے ۔یہ لوگ کہتے ہیں کہ علماء میں درس و تدریس کی صلاحیت نہیں ہے اس لئے ہم نے یہ بیڑا اٹھایا ہے ۔حال ہی میں انکے ایک مدرس نے رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای مد ظلہ کی اہانت کی ۔جس سے انکے فاسد مقاصد واضح ہوجاتے ہیں ۔مولانانے کہاکہ انگریزوں نے ٹیپو سلطان کی دشمنی میں اپنے کتوں کا نام ’’ٹیپو‘‘ رکھا تھا مگر اس سے ٹیپو سلطان کی شان اور انکی عظمت پر کوئ فرق نہیں پڑا بلکہ نام رکھنے والوں کی ذہنی پستی کا اندازہ ہوا ۔اسی طرح جو لوگ مراجع عظام اور رہبر معظم کی ہتک کے لئے مختلف نام رکھ رہے ہیں اس سے مراجع کرام اور علماء کی شان میں فرق نہیں آتا ہاں نام رکھنے والے کی ذہنی پستی کا اندازہ ضرور ہوجاتاہے ۔
مولانا نے خفیہ کلاسیز کی شدید تنقید کرتے ہوئے کہاکہ یہ لوگ اپنے کلاسیز کو بند نہیں کریں گے کیونکہ اسکے لئے انہیں بھاری رقم ملتی ہے ۔جس طرح اخباریت ،نصیریت اور ملنگیت کے فروغ کے لئے سازش کے تحت فنڈنگ ہورہی ہے اسی طرح ان کلاسیز کو بھی سازش کے تحت چلایا جارہاہے لہذا ہمیں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری نوجوان نسل گمراہی کا شکار نہ ہو ۔